تحریر: سید شایان

کل مطالعے کا دورانیہ: 24 گھنٹے 15 منٹ (اب تک 592 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )
[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]
لاہوری چاچا: (قسط 1)
لاہوری چاچا کے منہ سے نکلی گالیوں کی مذمت لازمی ہے۔۔۔ لیکن یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ وہ گالیاں ایک تربیت یافتہ مقرر کی تقریر نہیں تھیں
▫سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔
▫لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔
▫موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ایک کانسٹیبل کی ننگی گالیوں کو درگزر کر کے جواب میں اسے معاف کیا تھا لیکن اس مرتبہ “چاچا” کی گرفتاری کس کے حکم پر ہوئی؟
▫گالی (Abuse) اور کتھارسس (Catharsis) کے درمیان فرق ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔
پاکستان کے سوشل میڈیا کی دنیا میں آج کل ایک “چاچا” بہت وائرل ہو رہا ہے۔
لاہور شہر کا ایک عام، سادہ، محنت کش شہری جو برستی بارش میں بھیگا ہوا، موٹر سائیکل پر سوار ہے۔
گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبی سڑک پر وہ اپنی راہ لینے کی کوشش کر رہا ہے۔ چہرے پر تکلیف ہے، بارش سے بچنے کے لیے برساتی تو پہنی ہوئی ہے، مگر اس کے کپڑے پانی سے بھیگ چکے ہیں۔ اس کے لہجے میں بےبسی کے ساتھ ساتھ سانپ کی سی پھنکار بھی سنائی دیتی ہے کہ جب وہ صوبے کی خاتون وزیر اعلیٰ اور مسلح افواج کے سربراہ کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
ایسے لمحات میں جو کیفیت کسی بھی عام انسان کی ہو سکتی ہے، وہی کیفیت اس شخص کی بھی تھی۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایسی تکلیف پر، دل میں جو محسوس کرتے ہیں زبان پر نہیں لاتے اور اگر کچھ کہیں بھی تو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن وہ بیچارہ، سادہ لوح شخص، زبان اور تہذیب کے رسمی آداب سے ناآشنا تھا، اس لیے جو اس کے دل میں تھا، وہ منہ سے نکال بیٹھا۔ خالص لاہوری سٹائل میں کیے گئے الفاظ، جو اس نے ایک راہ گیر کو کہے تھے جو سڑک پر جمع پانی کی ویڈیو بنا رہا تھا، وہ الفاظ اس کی ویڈیو کے ساتھ سوشل میڈیا پر آ گئے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا پر اس کے کہے گئے منفی الفاظ کی مذمت کی جاتی اور اسے یہ احساس دلایا جاتا کہ اس نے صوبے کی معزز خاتون وزیر اعلیٰ اور پاکستان کی فوج کے سپہ سالار کے بارے میں ناموزوں الفاظ کہے ہیں۔ لیکن ہوا اس کے برعکس، محض چند آوازوں کے جن میں اس اقدام کی مذمت کی گئی، عام عوام کی طرف سے اس کی ویڈیو پر کمنٹس آنے شروع ہو گئے، جس میں اکثریت نے نہ صرف اس کے موقف کی تائید کی بلکہ اس کے لہجے کو غیر معمولی طور پر سراہا، اور بعض من چلے نوجوانوں نے اسے ‘چاچا’ کا لقب دے ڈالا، اور یوں وہ نامعلوم شخص لمحوں میں سب کا “چاچا” بن گیا۔
لیکن یہ معاملہ اس وقت مزید عام ہوا جب حکومت کی جانب سے اس کی گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا پر پھیل گئی، اور پولیس وین میں اس کی پولیس کے ساتھ تصاویر سامنے آئیں۔ پھر اچانک ایک اور ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں وہی شخص وزیر اعلیٰ اور سپہ سالار کے حق میں “زندہ باد” کے نعرے لگا رہا تھا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب حکومت کا پورا تماشا لگ گیا اور سوشل میڈیا پر لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ “لگتا ہے گالی وہاں تک پہنچ گئی جہاں پہنچنی چاہیے تھی۔” کچھ کا کہنا تھا کہ ہم سالوں سے اپنے مسائل کو حکومت تک پہنچانا چاہتے تھے لیکن کوئی راستہ نظر نہیں آتا تھا لیکن چاچے نے ہمیں راہ دکھا دی ہے۔ وغیرہ وغیرہ
اس کی گرفتاری اور پھر اس کے اعلیٰ شخصیات کے حق میں زندہ باد کے نعروں سے سوشل میڈیا پر میمز، ری ایکشن ویڈیوز، اسپوفس، ریلز اور ساؤنڈ بائٹس کا ایک طوفان آ گیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے لوگوں کے دلوں میں جو کچھ سالوں سے جمع تھا، وہ اس ایک سادہ شخص کی زبان سے نکل گیا ہے۔ جو بات لوگ خود نہیں کہہ سکتے تھے، وہ اُس نے غصے میں کہہ دی، اور یوں وہ عوامی جذبات کا بے ساختہ ترجمان بن گیا، مگر خود قربانی کا بکرا بن بیٹھا۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ چاچا سوشل میڈیا پر اتنا وائرل کیوں ہوا کہ کہا جانے لگا کہ الیکشن میں اسے میاں نواز شریف یا مریم نواز شریف کے مقابلے میں کھڑا کر کے دیکھ لیں کہ عام عوام میں کون زیادہ مقبول ہے۔
میرے نزدیک چاچا کے وائرل ہونے کا سب سے بڑا سبب حکومت کے ہاتھوں اس کی گرفتاری اور اس سے زندہ باد کے نعرے لگوانا ہے، جس کو ملک کے سنجیدہ طبقے نے بھی تنقید کی نظر سے دیکھا ہے کہ حکومتی حماقت سے چاچا غیر ضروری طور پر معاشرے کے خاموش طبقے کی آواز بن کر سامنے آیا ہے۔
یادش بخیر، ابھی اس بات کو بہت عرصہ نہیں گزرا کہ جب موجودہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو سر راہ ایک پولیس کانسٹیبل نے جو ننگی گالیاں دی تھیں اس سے زیادہ مہلک اور شدت کی گالیاں ابھی پنجابی زبان میں ایجاد نہیں ہوئیں ، لیکن ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کا نفیس اور قابل تحسین پہلو اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے تدبر اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ قانون کا سہارا لیا، نہ گرفتاری کی بات کی، بلکہ اس کانسٹیبل کی اس انتہائی غلیظ حرکت کو درگزر کر کے اسے اپنے آفس بلوایا، اسے چائے پلائی، نرمی سے اُس کے مسائل سنے، اور ان کے حل کے احکامات جاری کیے۔
آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا یہ اقدام محض معافی کا عمل نہیں تھا، بلکہ قیادت کے اُس اعلیٰ ظرف اور بالغ نظری کی علامت تھا، جو گالی کا جواب قانون کی سختی یا طاقت سے نہیں بلکہ وقار اور سمجھداری سے دیتی ہے۔
ایسے میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب پنجاب پولیس کی قیادت ایک ایسے باوقار، نرم خو اور بالغ نظر افسر کے ہاتھ میں ہے، جو خود کو گالیاں بکنے والے کانسٹیبل کو معاف کر سکتے ہیں، تو پھر انہی کے دور میں ایک سادہ، کم فہم شہری کو ، جو بارش، مایوسی اور بےبسی کے عالم میں کچھ نازیبا الفاظ کہہ بھی بیٹھا تھا ، فوراً گرفتار کیوں کیا گیا؟
آئی جی پنجاب کو اس مرتبہ بھی عفو و درگزر کی وہی پالیسی اپنانی چاہیے تھی، جیسا کہ ماضی میں ان کی جانب سے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا گیا۔ چاچا کو نرمی سے سمجھایا جا سکتا تھا، وارننگ دی جا سکتی تھی، اور یہ احساس دلایا جا سکتا تھا کہ اس طرزِ گفتگو سے معاملہ سلجھنے کے بجائے بگڑتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بارش کے باعث سڑکوں پر پانی جمع ہو جانا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ ایک عام بات ہے، یہ محض پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ ایک سادہ، غیرسیاسی شہری، جو برستی بارش، تھکن اور بےبسی کے عالم میں چند نازیبا الفاظ ادا کر بیٹھا، اگر اس سے محبت اور وقار کے ساتھ بات کی جاتی، تو وہ یقیناً بات سمجھتا۔ وہ کوئی مجرم نہیں تھا، بس ایک عام آدمی تھا جو اس بگڑے ہوئے نظام سے دلبرداشتہ ہو چکا ہے۔
ہماری اعلیٰ قیادت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ گالی (Abuse) اور کتھارسس (Catharsis) یعنی ایسا جذباتی اظہار یا ردعمل جس کے بعد انسان ہلکا اور پرسکون محسوس کرے ، میں واضح فرق ہے۔
چاچا کی اس حرکت کو بھی نفسیاتی حوالے سے Abuse کی بجائے Catharsis سمجھ کر اس سے باز پرس کی جا سکتی تھی۔ سول سوسائٹی عام طور پر ایسے جذباتی ردعمل کو انسانی کمزوری نہیں بلکہ ایک فطری حق مانتی ہے، خاص طور پر جب وہ ظلم، ناانصافی یا نظام کی خرابی کے خلاف ہو۔ تاہم، اگر یہی اظہار شدت، بدزبانی یا انتشار کی صورت اختیار کر لے تو بعض طبقے اسے تہذیبی حدود سے باہر سمجھنے لگتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ کتھارسس نہ صرف ایک نفسیاتی ریلیف ہے بلکہ سماج کے لیے ایک آئینہ بھی ہے، جو ہمیں بتاتا ہے کہ خاموشی کے پیچھے کتنی چیخیں دفن ہیں۔
(باقی آئندہ قسط میں)
5
2 Comment
592 Views
There could be a better way to teach him manners, gvt of pakistan is being worst of it now!
Bro doesn't even hesitate 😹