Home
پبلشنگ کی تاریخ: 5 جون, 2025
رائٹر: سید شایان

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

• گائے اور بیل: 28 لاکھ (2.8 ملین)
• بھینسیں: 1.65 لاکھ (0.165 ملین)
• بکریاں: 33 لاکھ (3.3 ملین)
• بھیڑیں: 3.85 لاکھ (0.385 ملین)
• اونٹ: 98,700 (تقریباً 0.099 ملین)

یہ اعداد و شمار 2023 کے مقابلے میں 9.7 فیصد اضافہ ظاہر کرتے ہیں، جب تقریباً 61.8 لاکھ (6.18 ملین) جانور قربان کیے گئے تھے۔

اگر ہم پاکستان میں مویشیوں (جانوروں) کی مجموعی آبادی کا اندازہ لگائیں، صرف بڑے اور اہم پالتو جانوروں پر، تو وہ کچھ یوں ہوگی:

بڑے جانوروں کی تعداد (پاکستان اکنامک سروے 2023-24 کے مطابق):
• گائے: 5 کروڑ 75 لاکھ
• بھینسیں: 4 کروڑ 63 لاکھ
• بکریاں: 8 کروڑ 70 لاکھ
• بھیڑیں: 3 کروڑ 27 لاکھ
• اونٹ: 12 لاکھ
• گدھے: 59 لاکھ
• گھوڑے: 4 لاکھ
• خچر: 2 لاکھ

کل جانوروں کی مجموعی تعداد: 23 کروڑ 12 لاکھ (یعنی تقریباً 231.2 ملین)

اگر ہم پاکستان میں مویشیوں کی کل تعداد یعنی 23 کروڑ 12 لاکھ (231.2 ملین) میں سے وہ جانور نکال دیں جو قربانی یا خوراک کے لیے استعمال نہیں ہوتے، جیسے گھوڑے، گدھے اور خچر، تو باقی بچنے والے جانوروں کی تعداد کچھ یوں بنتی ہے:
گھوڑے: 4 لاکھ، گدھے: 59 لاکھ، اور خچر: 2 لاکھ جن کا مجموعہ 65 لاکھ (6.5 ملین) بنتا ہے۔ جب ہم یہ تعداد کل مویشیوں میں سے منفی کرتے ہیں تو باقی رہنے والے جانوروں کی مجموعی تعداد تقریباً 22 کروڑ 47 لاکھ (224.7 ملین) بنتی ہے۔ یعنی اگر صرف قربانی اور خوراک سے متعلق مویشیوں کو دیکھا جائے (گائے، بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں، اونٹ)، تو ان کی مجموعی تعداد تقریباً 22 کروڑ 47 لاکھ (224.7 ملین) بنتی ہے اور یہی وہ مویشی ہیں جو عموماً خوراک، دودھ، چمڑے، اور عید الاضحیٰ کی قربانی جیسے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

قربانی کے لیے مویشی پالنے کا شعبہ پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے، جو زرعی شعبے کی قدر میں 60.84 فیصد اور قومی جی ڈی پی میں 14.63 فیصد کا حصہ رکھتا ہے۔ مال مویشیوں کی افزائش سے دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، اور یہ شعبہ 8 ملین سے زائد دیہی خاندانوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔

پاکستان میں قربانی کیے جانے والے جانوروں کی سالانہ تعداد آج کی شرح کے مطابق اگرچہ 68 لاکھ ہے، لیکن مویشیوں کی افزائشِ نسل کی شرح اس شرحِ قربانی سے کہیں زیادہ ہے، خاص طور پر بکریوں اور بھیڑوں جیسے جانوروں میں۔ بکریاں سال میں اوسطاً دو بچے دیتی ہیں، اور اگر ہم صرف پاکستان کی 8 کروڑ 70 لاکھ بکریوں میں سے آدھی کو مادہ فرض کریں، تو یہ تقریباً 8 کروڑ 70 لاکھ نئے بچوں کی سالانہ افزائش دیتی ہیں جو خود قربانی کے جانوروں کی کل سالانہ تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح دیگر جانور جیسے گائے، بھینس، اور بھیڑ بھی مسلسل افزائش کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں، جن کی اوسط سالانہ شرح 2 سے 3 فیصد کے درمیان ہے۔ اس لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ قربانی کا عمل جانوروں کی آبادی کے لیے خطرہ نہیں، بلکہ یہ ایک فطری توازن کے تحت جاری رہنے والا عمل ہے، جو نہ صرف مذہبی فریضے کی ادائیگی کو ممکن بناتا ہے بلکہ دیہی معیشت، خوراک، اور زراعت کے لیے بھی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

مجھے یہ آرٹیکل لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ آج کل پاکستان کے بڑے اخبارات اور سوشل میڈیا میں ایک خبر وائرل ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر مراکش کے بادشاہ محمد ششم نے عوام سے اپیل کی ہے کہ اس سال قربانی نہ کریں، کیونکہ ملک شدید معاشی اور موسمیاتی بحران کا شکار ہے، جس سے مویشیوں کی تعداد اور افزائش نسل متاثر ہو رہی ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ قربانی سنتِ مؤکدہ ہے، لیکن اسلام مشکل حالات میں رعایت دیتا ہے۔ انہوں نے خود دو بھیڑیں قربان کرنے کا اعلان کیا۔ اپیل کے بعد مویشی منڈیوں سے جانور غائب ہو گئے، اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آئیں جن میں سرکاری اہلکار لوگوں کے گھروں سے بھیڑیں ضبط کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال سے مخالفین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر بے تحاشا جانوروں کی قربانی کی وجہ سے ایسا ہوا، لیکن حالات و واقعات سے مجھے معلوم ہوا کہ اس قلت کی وجہ مراکشی حکومت کی مویشیوں کے بارے میں ناقص پالیسی ہے۔



اگر کسی معاشرے میں جانوروں کی افزائشِ نسل پر خاطر خواہ توجہ نہ دی جائے، ان کی خوراک، علاج، اور نگہداشت کا نظام نہ ہو، تو مراکش جیسی صورت حال درپیش آ سکتی ہے کہ جہاں جانوروں کی افزائش نہ ہونے سے جانور نہ صرف کم ہو گئے ہیں بلکہ بیمار پڑنے اور مرنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے، گویا مسئلہ قربانی کا نہیں، بلکہ جانوروں کی صحت اور نگہداشت کے نظام میں کمزوری کا ہے۔ اگر جانور پالنے، ان کی افزائش اور نگہداشت کو سنتِ ابراہیمی کا حصہ سمجھا جائے تو قربانی نہ صرف ممکن ہے بلکہ پائیدار بھی۔ مراکش میں شاید مسئلہ یہی رہا کہ قربانی تو کی جاتی رہی، لیکن اس کے پیچھے جو نظامِ پرورش ہونا چاہیے تھا، وہ کمزور رہا اور اب اس کا بوجھ مویشیوں کی نسل اور عوام دونوں پر پڑ رہا ہے۔

یہ سب پڑھ کر میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوا کہ سنتِ مؤکدہ وہ عمل ہے جسے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقل کیا ہو اور اس کے ترک پر تنبیہ کی ہو۔ تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو عمل خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال اختیار فرمایا، وہ کسی قوم یا فرد کے نقصان کا باعث بنے؟

قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

یہ سوال پہلی نظر میں منطقی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ہر سال لاکھوں جانور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربان کیے جاتے ہیں۔ اس لیے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس طرح تو ایک دن آئے گا کہ تمام قربانی کے جانوروں کی نسلیں ختم ہو جائیں گی۔ تاہم جب ہم اس عمل کو دینی، معاشی، اور حیاتیاتی زاویوں سے دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ قربانی نقصان نہیں بلکہ فائدے کا ذریعہ ہے، نہ صرف انسانوں کے لیے، بلکہ خود جانوروں کی نسل کے تسلسل کے لیے بھی۔

قربانی کا ذکر سب سے پہلے خود قرآن مجید میں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

“فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ” (سورۃ الکوثر، آیت 2) ترجمہ: “پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔”

اور رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلى الله من إهراق الدم…” (ترمذی، ابن ماجہ) یعنی: “عید کے دن اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل خون بہانا (قربانی) ہے۔”

یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ قربانی صرف ایک روایت یا رسم نہیں، بلکہ ایک روحانی و فطری عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا ذریعہ ہے۔

اب اگر ہم قربانی کے عمل کے اثرات کو جانوروں کی نسل پر دیکھیں تو ایک دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قربانی کی طلب خود افزائشِ نسل کی سب سے بڑی وجہ بن جاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں دیہی معیشت کا ایک بڑا حصہ مویشی پالنے سے وابستہ ہے، قربانی کے موسم میں جانوروں کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ معاشی فائدہ کسانوں اور چرواہوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ جانور پالیں، ان کی دیکھ بھال کریں اور ان کی نسل کو بڑھائیں۔ معاشی اصطلاح میں اسے “demand-driven reproduction” کہا جاتا ہے، یعنی جب منڈی میں طلب موجود ہو تو قدرتی طور پر پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔

میں نے اس مضمون کے آغاز میں پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی سالانہ تعداد، ان کی افزائشِ نسل، اور قربانی کی شرح کے مستند اعداد و شمار پیش کیے ہیں، جو یہ واضح کرتے ہیں کہ آیا اس ملک میں جانوروں کی افزائش ہو رہی ہے یا کمی واقع ہو رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کی انسانی آبادی تقریباً 24 کروڑ ہے، اور ملک میں پائے جانے والے بڑے قربانی کے پالتو جانوروں کی تعداد بھی تقریباً 22 کروڑ 47 لاکھ ہے۔ یہ تناسب اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قربانی جانوروں کی نسل کو کم کرنے والا عمل نہیں، بلکہ ان کی افزائش اور بقا کے ایک مربوط نظام کا حصہ ہے۔

0 Comment

58 Views

Syed Shayan

مصنف کے بارے میں

اس آرٹیکل کے مصنف سید شایان پیشے کے حساب سے بزنس مین ہیں۔ اور لاہور میں رہتے ہیں۔ مین گلبرگ لاہور میں اپنے رئیل اسٹیٹ سٹارٹ اپس اور سافٹ وئیر کمپنی چلا رہے ہیں۔ آپ نے اپنے ہی نام سے ایک تھنک ٹینک اور ویب پورٹل syedshayan.com قائم کیا ہے۔ جو تجزیاتی تحریروں، قومی و عالمی موضوعات پر تحقیق، اور بصیرت افروز مکالمے کا پلیٹ فارم ہے۔

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

🎖 فِیلڈ مارشل کا عُہدہ

اگر آرمی چیف کو فِیلڈ مارشل کا رینک دیا جا سکتا ہے تو پاکستان ایئر فورس کے سَربراہ کو “مارشل آف دی ایئر فورس” کا اِعزازی رینک دینا بھی وقت کا تقاضا ہے کہ حالیہ جنگ میں پاکستان کی فتح کا فیصلہ کُن اور مرکزی کردار فِضائیہ نے ہی ادا کیا ہے۔


Article Image

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔

روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔


Article Image

بھارت کا اپنی واضح شکست ماننے سے انکار!

جنگ ہارنے والا فریق اعترافِ شکست کیوں نہیں کرتا؟ ایک نفسیاتی تجزیہ!