رائٹر: سید شایان

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔
روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔
خبر یہ ہے کہ جنگ لاہور سے رپورٹنگ کے علاوہ تقریباً تمام شعبوں سے ملازمین کی چھانٹی کی گئی ہے، پیج میکنگ، نیوز روم، ایکسچینج، اور دیگر تکنیکی شعبے محدود یا غیر فعال ہو چکے ہیں۔ اس سے سینکڑوں ملازمین براہِ راست متاثر ہوئے ہیں، اور ان میں سے اکثر شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال صرف ایک ادارے کی نہیں، بلکہ پاکستانی پرنٹ میڈیا کی مجموعی گراوٹ کا عکس ہے۔
تبصروں میں سب سے زیادہ غم و غصہ مالکان کی پالیسیز پر کیا جا رہا ہے، جنہوں نے وقت پر ڈیجیٹل تبدیلی کو قبول نہیں کیا اور نہ ہی کارکنوں کو نئی مہارتیں (Digital Skills) سکھانے میں کوئی کردار ادا کیا۔ صحافیوں کا مؤقف یہ ہے کہ جب ادارے ٹیکنالوجی سے پیچھے رہ جاتے ہیں تو قربانی صرف کارکن دیتے ہیں، جو دہائیوں سے اپنی زندگیاں ان اداروں کے نام پر وقف کر چکے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے “Media Casualties” کہہ رہے ہیں، جہاں صحافت نہیں بلکہ صحافی قربان ہو رہے ہیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں صحافیوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، اور یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں رہا۔ امریکہ میں CNN، Vice، Vice News اور BuzzFeed News جیسے بڑے میڈیا اداروں نے حالیہ برسوں میں سینکڑوں صحافیوں کو ملازمت سے فارغ کیا۔ BuzzFeed News جیسے عالمی شہرت یافتہ ادارے کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔ برطانیہ میں BBC نے World Service کے کئی شعبے بند کیے اور درجنوں سینئر اسٹاف کو رخصت کر دیا۔ The Independent نے اپنا پرنٹ ایڈیشن مکمل طور پر بند کر کے صرف ڈیجیٹل ماڈل اپنایا، جس کے نتیجے میں عملے کی بڑی تعداد کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بھارت میں بھی کووڈ کے بعد ہزاروں صحافی بے روزگار ہوئے، اور کئی علاقائی و قومی اخبارات جیسے کہ The Hindu، Hindustan Times اور The Telegraph نے اپنے ایڈیشنز محدود کر دیے۔
اس ساری صورتحال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ خبروں کی دنیا اب تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہی ہے، اور اشتہارات کا پیسہ Google، Facebook اور دیگر پلیٹ فارمز کے پاس جا رہا ہے۔ ساتھ ہی، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی مدد سے خودکار خبر نویسی اور ایڈیٹنگ جیسے عمل بھی انسانی عملے کی ضرورت کم کر رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگرچہ تربیتی مواقع اور متبادل ذرائع پیدا کیے جا رہے ہیں، لیکن ترقی پذیر ممالک میں صحافی خاموشی سے بے سروسامانی کا شکار ہو رہے ہیں۔
اس وقت جو سب سے ضروری ہے وہ دو چیزیں ہیں:
1- ایک تو یہ کہ اخبارات اور میڈیا ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ اپنے ادارے کی بقا کے لیے پرنٹ میڈیا سے آگے دیکھیں اور اپنی ٹیموں کو وقت کے ساتھ تیار کریں۔
2- دوسرے صحافیوں کو بھی اب خود کو صرف خبر لکھنے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ انہیں ڈیجیٹل رپورٹنگ، موبائل جرنلزم، ویژول ایڈیٹنگ، اسکرپٹ رائٹنگ اور سوشل میڈیا تھریڈز جیسی مہارتیں سیکھنی ہوں گی۔ اب صحافت ایک نئی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں رپورٹر کو خود ہی لکھنا، بولنا، ایڈٹ کرنا اور پبلش کرنا آنا چاہیے۔
پاکستان میں صحافیوں کا ایک نیا طبقہ اب صرف روایتی اداروں پر انحصار نہیں کر رہا بلکہ ڈیجیٹل آزادی، خودمختار رپورٹنگ، اور براہ راست عوامی رابطے کے ذریعے اپنی شناخت قائم کر رہا ہے۔ اسد طور، عمر چیمہ، احمد نورانی، اور عمیر احمد جیسے صحافیوں نے یوٹیوب، ویب سائٹس، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنی الگ آواز پیدا کی ہے۔ اسد طور سیاسی تجزیوں کے لیے یوٹیوب پر متحرک ہیں، احمد نورانی نے تحقیقاتی صحافت کے لیے امریکہ میں بھی آزاد ڈیجیٹل ادارہ بنایا، اور عمیر احمد نے The Centrum Media (TCM) کے ذریعے نوجوانوں کو بصری رپورٹنگ سے جوڑا۔ اسی طرح مہر عباسی اور کاشف عباسی بھی اب ڈیجیٹل فضا میں اپنی موجودگی بڑھا چکے ہیں۔ مزید ناموں میں عمران ریاض خان، سمیع ابراہیم، طاہر خان، عاصمہ شیرازی، نجم سیٹھی، سلیم صافی، انصار عباسی، مبشر لقمان، رؤف کلاسرا، اور صابر شاکر شامل ہیں، جو یا تو مکمل طور پر ڈیجیٹل اسپیس میں منتقل ہو چکے ہیں یا متوازی طور پر اپنی آن لائن موجودگی کو مضبوط کر رہے ہیں۔
کئی اور معروف صحافی اب صرف روایتی میڈیا پر انحصار کرنے کے بجائے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی الگ شناخت قائم کر چکے ہیں۔ اس رجحان میں منصور علی خان، خالد مجید فاروقی، ندیم ملک، محسن بیگ، عارف حمید بھٹی، سید علی حیدر، محمد مالک، سید شمشاد علی، سلیم بخاری، اور رضوان رضی جیسے نام نمایاں ہیں۔ ان میں سے کچھ نے یوٹیوب پر اپنے چینلز شروع کیے، کچھ نے ویب شوز کا آغاز کیا، اور کچھ نے مکمل آن لائن نیوز پلیٹ فارمز قائم کیے جہاں وہ عوامی مسائل، سیاسی تجزیے اور تحقیقاتی رپورٹس براہ راست اپنے سامعین تک پہنچاتے ہیں۔
ان صحافیوں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کا دور خودمختار صحافت، ڈیجیٹل مہارت اور عوامی اعتماد پر مبنی ہے، یہ رجحان اس بات کا غماز ہے کہ آج کا صحافی صرف ایک رپورٹر نہیں بلکہ ایک مکمل میڈیا برانڈ ہے، جو خود لکھتا ہے، بولتا ہے، ایڈیٹ کرتا ہے اور پبلش بھی۔ یہی ماڈل اب مستقبل کی صحافت کہلاتی ہے۔
میرے نزدیک یہ تبدیلی صحافی برادری کے لیے مجموعی طور پر ایک مثبت رخ بھی رکھتی ہے۔ پہلے چند بڑے میڈیا ہاؤسز ہی ذرائع ابلاغ پر حاوی تھے، جہاں سینکڑوں افراد ملازم تھے، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ آج پاکستان میں چھوٹے بڑے سینکڑوں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، یوٹیوب چینلز، ویب سائٹس، اور انفرادی میڈیا ہاؤسز سامنے آ چکے ہیں، جن کے مالکان خود وہی صحافی ہیں جو کبھی کسی ادارے کے ملازم ہوا کرتے تھے۔
یقیناً ان میں سے بہت سے اب نہ صرف خود کفیل ہو چکے ہیں بلکہ معاشی طور پر بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تبدیلی نے انہیں صرف اظہار کا اختیار ہی نہیں دیا بلکہ معاشی خودمختاری بھی عطا کی ہے۔ اگرچہ اس سفر کی شروعات میں انہیں عارضی طور پر دھچکا لگا، لیکن یہی دھچکا بہتوں کے لیے نئی راہیں کھولنے والا ثابت ہوا۔
بدلتے حالات کی یہ تبدیلی صحافی برادری کے لئیے ایک لحاظ سے بڑی مثبت بھی ہے۔ جس میں سینکڑوں صحافی اب اپنے اپنے میڈیا پلیٹ فارمز کے مالک ہیں اور زیادہ بہتر معاشی زندگی کے مالک ہیں
پہلے اگر پاکستان میں دس بڑے میڈیا ہاؤسز تھے اور ان میں سینکڑوں ملازمین کام کرتے تھے رو اب اس ملک میں چھوٹے بڑے سینکڑوں میڈیا ہاؤسز قائم ہو چکے ہیں۔
تو مجھے تو اس عمل میں صحافی کارکنان کی بیروزگاری کہیں نظر نہیں آتی ہاں عارضی طور پر انہیں معاشی دھچکہ ضرور لگا ہے لیکن یہی دھچکہ انہیں معاشی اور پروفیشنل طور پر بہت اوپر لے جا سکتا ہے۔ صرف ضرورت ہے بدلتے حالات کو سمجھنے کی۔
پاکستان کی صحافت سے جُڑے تمام کارکنان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ دنیا بھر میں صحافت تیزی سے ڈیجیٹل ہو رہی ہے، اور اسی کے ساتھ ملازمتوں کا روایتی نظام بھی بدل رہا ہے۔ اب صحافی صرف ملازمت کے منتظر نہیں، بلکہ خود ایک دوسرے کے لیے روزگار پیدا کر رہے ہیں۔ اس ماڈل کو (Peer-Led Media Employment) کہا جاتا ہے یعنی وہ پلیٹ فارم جہاں صحافی خود اپنا میڈیا ہاؤس، یوٹیوب چینل یا ویب سائٹ بناتے ہیں، اور اس کے ذریعے دوسرے بےروزگار صحافیوں کو کام دیتے ہیں۔ کوئی اسکرپٹ لکھتا ہے، کوئی ایڈیٹنگ کرتا ہے، اور کوئی سوشل میڈیا ہینڈل سنبھالتا ہے۔
دنیا میں کچھ کامیاب مثالیں موجود ہیں۔ (Paydesk) ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں صحافی اپنی پروفائل بناتے ہیں اور عالمی میڈیا ادارے ان سے براہ راست کام لیتے ہیں۔ اسی طرح (JournalismJobs.com) پر مختلف اخبارات، میگزین اور چینلز اپنی آسامیاں دیتے ہیں، جہاں آزاد صحافی اپلائی کر سکتے ہیں۔
اس ماڈل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں نہ حکومت کی مدد درکار ہوتی ہے، نہ کسی بڑے میڈیا گروپ کی۔ اگر ہر صحافی صرف دو دوسرے صحافیوں کو اپنے ساتھ ملا لے، تو ایک مکمل (micro media economy) بن سکتی ہے جو خودمختار بھی ہوگی، آزاد بھی، اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بھی۔
یہی مستقبل کی صحافت ہے جو خود انحصاری (Self-Reliance)، باہمی تعاون (Collaboration)، اور ڈیجیٹل طاقت (Digital Empowerment) سے جڑی ہوئی ہے۔
ایسی صحافت جو کسی سسٹم کی مرہونِ منت نہ ہو، بلکہ اپنا خود سسٹم بنانے کی اہلیت رکھتی ہو۔
1
0 Comment
9 Views