پاکستان کے جنگلوں میں لگنے والی آگ کہیں شہروں تک نہ آ پہنچے۔
▫️چلغوزے کے درختوں کا %40 جل جانا ایک قومی اور معاشی سانحہ ہے
▫️اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں آگ لگنے سے 45 ایکڑ رقبے پر درخت اور سبزہ زار کی تباہی کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچا ہے۔
▫️آگ سے نمٹنے کے لئیے ایران نے خصوصی فائر فائٹنگ طیارے
...
بھجواۓ ہیں
▫️زیادہ درجہ حرارت اور کم بارشیں جنگلات کو خشک اور آتش گیر بنا رہی ہیں، جس سے آگ لگنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔
▫️جنگلوں میں آگ کیوں لگتی ہے ؟ ایک جائزہ
اردو کا ایک محاورہ ہے “جنگل کی آ گ کی طرح پھیلنا” اور یہ عموماً اس وقت بولا جاتا ہے کہ جب کسی واقعہ یا اطلاع کے پھیلنے کی رفتار کو بیان کرنا ہو۔ مثال کے طور
“اس کی کامیابی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی”۔
دیکھا جاۓ تو عام حالات میں جنگل کی آگ کی رفتار 1.6 سے 9.6 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس وقت ہوا بھی چل رہی ہو تو آگ کی رفتار 16 سے 24 کلومیٹر فی گھنٹہ تک جا پہنچتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک صحت مند انسان کے چلنے کی اوسط رفتار تقریباً 5 سے 6.5 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے اور دوڑنے کی رفتار 13 سے 16 کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوتی ہے۔
اس لئیے یہ ضروری نظر آتا ہے کہ پاکستان کے اربن ماہرین جنگلوں اور شہروں کے درمیان خصوصاً اسلام آباد کے لئیے ایک واضح بفر زون Buffer Zone قائم کریں اور ان میں (Firebreaks) یا “زمین کی پٹیاں” تیار کی جائیں فائر بریکس کا مقصد آگ کے پھیلاؤ کو روک کر آگ بجھانے میں مدد فراہم کرنا اور انسانی جانوں اور املاک کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ دراصل یہ وہ خالی جگہیں ہوتی ہیں جو جنگل یا آگ کے متاثرہ علاقے میں جان بوجھ کر خالی چھوڑی جاتی ہیں تاکہ آگ کو پھیلنے سے روک کر کسی بھی ناگہانی حادثے سے بچا جا سکے۔
پاکستان میں حالیہ جنگلات کی آگ نے عوام اور حکام دونوں کو پریشان کر دیا ہے۔ اس وقت ملک میں مختلف مقامات پر جنگلوں میں آگ بھڑک رہی ہے، جن میں بلوچستان کے کوہ سلیمان کے علاقے میں سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ یہاں چلغوزے کے درختوں کا تقریباً 40 فیصد حصہ جل چکا ہے۔ چلغوزے کے درختوں کا جلنا ایک بڑا ماحولیاتی اور معاشی نقصان ہے۔
اس کے علاوہ، خیبر پختونخوا کے شانگلہ ضلع میں بھی آگ لگنے کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں چار افراد ہلاک ہو گئے ہیں
اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں حالیہ جنگلات کی آگ کے نتیجے میں تقریباً 45 ایکڑ رقبے پر آگ بھڑک چکی ہے، جس نے بہت سے درختوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے اس آگ نے بہت سے جنگلی جانوروں کے habitats کو تباہ کر دیا، جس سے ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ کچھ جنگلی جانور آگ سے بچنے کے لئے اپنے علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
پاکستان میں فارسٹ (Forests) اور مینگرووز (Mangroves) دو طرح کے جنگلات ہیں۔ فارسٹ زمینی جنگلات ہیں جو خشکی پر اگتے ہیں اور پہاڑی، میدانی، اور ریگستانی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ جنگلات میٹھے پانی یا خشکی پر اگتے ہیں اور مختلف اقسام کی جنگلی حیات کا مسکن ہوتے ہیں، اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں۔ دوسری طرف، مینگرووز Mangroves
ساحلی جنگلات ہیں جو کھارے پانی میں اگتے ہیں اور سمندری ساحلوں پر پائے جاتے ہیں۔ یہ جنگلات ساحلی کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندری جانداروں کا مسکن ہیں۔
پاکستان میں تقریباً 15 کے قریب زمینی جنگل اور 37 کے قریب نیشنل پارکس ہیں اور گزشتہ دس سالوں میں پوری دنیا میں زمینی جنگلوں میں آتشزدگی کے واقعات میں حد درجہ اضافہ ہُوا ہے۔
جنگلوں میں آگ لگنے کی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں اور یہاں چند اہم وجوہات بیان کی جارہی ہیں:
1. موسمی تبدیلیاں (Climate Change) : حالیہ دہائیوں میں موسمی تبدیلیاں بڑھ گئی ہیں جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ خشک سالی کا سبب بنتا ہے جس سے جنگلوں کو آگ لگنے کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں۔
2. انسانی عوامل (Human Factors) : انسانوں کی جانب سے جنگلوں میں پکنک، کیمپنگ، اور دیگر سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ ان سرگرمیوں کے دوران آگ کا غیر محتاط استعمال جنگلوں میں آگ لگنے کا سبب بن سکتا ہے۔
3. بجلی کی تاریں (Electrical Lines) : جنگلوں کے قریب سے گزرنے والی بجلی کی تاریں کبھی کبھی ٹوٹ جاتی ہیں اور آگ لگنے کا سبب بنتی ہیں۔
4. قدرتی وجوہات (Natural Causes) : قدرتی وجوہات جیسا کہ آسمانی بجلی کا گرنا بھی جنگلوں میں آگ لگنے کا سبب بن سکتا ہے۔
5. زرعی سرگرمیاں (Agricultural Activities) : کسانوں کی جانب سے کھیتوں کو جلانے کی کوشش بھی کبھی کبھار جنگلوں میں آگ پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔
6.لکڑی کاٹنا (Deforestation): جنگلات کی کٹائی اور لکڑی کا غیر قانونی حصول جنگلات کو کمزور بنا رہا ہے، جس سے آگ لگنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
7.غیر مؤثر جنگل انتظام (Ineffective Forest Management):
جنگل کی صفائی (Forest Clearing): کچھ علاقوں میں جنگلات کی مؤثر صفائی نہیں کی جاتی، جس سے خشک پودے اور لکڑی جمع ہوجاتی ہے، جو آگ لگنے کا سبب بن سکتی ہے۔
جنگل کی آگ جسے Bushfire یا wildfire بھی کہتے ہیں،
کی وجہ سے از حد ماحولیاتی نقصان ہوتا ہے، جس میں درختوں کی تباہی، جنگلی حیات کا نقصان، اور فضائی آلودگی شامل ہیں۔ آگ سے بچاؤ کے لئے مناسب اقدامات اور عوامی آگاہی کی مہم کی ضرورت ہے تاکہ جنگلات کی حفاظت کی جا سکے۔
(سید شایان نے یہ آرٹیکل شہری و دیہی زندگی کے رئیل اسٹیٹ ریسرچ پورٹل اور تھنک ٹینک SyedShayan.com کے لئیے تحریر کیا)
وہ مشہور شخصیات، جنہوں نے گَھر کے بجاۓ ہوٹل میں زندگی گزاری۔اور وہیں انتقال کیا ۔
اکبر الہ آبادی کا یہ شعر دیکھئیے!
ہوۓ اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں ، مرے اسپتال جا کر !!!
یہ شعر پڑھ کر میں نے سوچا کہ میں اپنے قارئین کے لیے اس دلچسپ موضوع پر ایک مضمون لکھوں کہ کن مشہور
...
شخصیات نے گھر میں رہنے کی بجاۓ زندگی کا بیشتر حصہ ہوٹلوں میں گزارا اور پھر وہیں ہوٹل میں یا کسی ہسپتال میں وہ انتقال کر گئے۔
آئیے! جانتے ہیں۔
🔹 کوکو شنیل (Coco Chanel) مشہور فرانسیسی خاتون فیشن ڈیزائنر تھیں، جنہوں نے 20ویں صدی میں فیشن کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ وہ اپنی جدید اور نفیس ڈیزائننگ کے لیے مشہور ہیں، جیسے
(Little Black Dress)
اور چینل نمبر 5 پرفیوم (Chanel No. 5 perfume)۔
ان کا برانڈ “شانل” (Chanel) دنیا بھر میں لگژری فیشن، پرفیومز اور اعلیٰ معیار کی مصنوعات کے لیے جانا جاتا ہے۔ شانل کے لوگو کے دو آپس میں جڑے ہوئے “C” ہیں، جو کوکو شینیل کے نام کی علامت ہیں۔
کوکو شینیل (Coco Chanel) 1930 کی دہائی میں ہوٹل رٹز (Hotel Ritz) میں رہائش پذیر ہوئیں اور پھر دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی وہیں رہیں۔ جنگ کے بعد بھی ان کا قیام ہوٹل رٹز میں ہی رہا۔
وہ تقریباً 30 سال تک ہوٹل رٹز میں مقیم رہیں، اور 10 جنوری 1971 کو اسی ہوٹل میں ان کا انتقال ہوا۔ ہوٹل رٹز ان کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا تھا اور ان کے مشہور فیشن ہاؤس کے قریب ہونے کے باعث یہ ہوٹل ان کے لیے ایک مثالی رہائش گاہ تھی۔
🔹ایلن مسک (Elon Musk) نے اپنی مشہور الیٹرک کار ٹیسلا (Tesla) کا نام ، ایک مشہور سائنسدان اور مُوجد نکولا ٹیسلا (Nikola Tesla) کے نام پر رکھا ہے
نکولا ٹیسلا کی سب سے مشہور ایجادات میں اے سی (Alternating Current) اور ٹیسلا کوائل شامل ہیں۔
نکولا ٹیسلا نے اپنی زندگی کے آخری 10 سال نیویارک کے “نیو یارکر ہوٹل” (New Yorker Hotel) میں گزارے۔ وہ 1933 میں اس ہوٹل میں منتقل ہوئے اور 1943 تک وہیں مقیم رہے۔ ان کا انتقال 7 جنوری 1943 کو اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر 3327 میں ہوا۔
🔹جسٹس اے آر کارنیلئس (Justice A.R. Cornelius):
جسٹس اے آر کارنیلئس، پاکستان کے قانونی فلسفی، معروف جج اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس تھے۔ انئوں نے 1960 سے 1968 تک چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔
آگرہ میں پیدا ہونے والے جسٹس کارنیلئس نے لاہور کے فلیٹیز ہوٹل (Faletti’s Hotel) میں اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارا۔ اس ہوٹل میں ان کے قیام کے دوران، ان کے لئے ایک خاص کمرہ مختص تھا، جسے اب “جسٹس کارنیلئس سویٹ” (Justice Cornelius Suite) کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اس ہوٹل میں تقریباً 40 سال گزارے، جسٹس اے آر کارنیلئس کا انتقال 21 دسمبر 1991 کو لاہور کے سروسز اسپتال میں ہُوا جب انہیں شدید علالت کے سبب فلیٹیز ہوٹل سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا ۔ جہاں وہ کچھ دن کے بعد انتقال کر گئے۔
ان کی علالت کی خبر کا اخبارات میں پڑھ کر ان کے بیٹے مائیکل کارنیلئس امریکہ سے پاکستان پہنچے آخری وقت میں وہ اور سروسز ہسپتال کے اسوقت کے رجسٹرار اور آج کے ہارٹ فزیشن، ڈاکٹر جاوید سبزواری ( ڈاکٹر صاحب اطلاعاً میرے بڑے بھائی بھی ہیں😎) ان کے پاس تھے۔
جسٹس کارنیلئس کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ محترم اور بااصول ججوں میں ہوتا ہے۔ ان کی زندگی اور خدمات نے پاکستان کی عدلیہ پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
🔹ہاورڈ ہیوز (Howard Hughes) ایک مشہور امریکی کاروباری شخصیت، فلم پروڈیوسر، اور ہوا باز تھے، جنہوں نے ۔ 1938 میں، انہوں نے دنیا کے گرد تیز ترین سفر مکمل کر کے عالمی شہرت حاصل کی۔
ہاورڈ ہیوز کا تعلق ایک بہت ہی امیر خاندان سے تھا۔
انہوں نے ہالی ووڈ میں بھی اپنی شناخت بنائی۔ انہوں نے کئی مشہور فلموں کی پروڈکشن کی، جن میں "ہیلز اینجلس" (Hell's Angels)، "دی آؤٹ لاء" (The Outlaw)، اور "سکارفیس" (Scarface) شامل ہیں۔ ان کی فلمیں اپنے وقت کی جدید ترین اور مہنگی پروڈکشنز میں شمار ہوتی تھیں۔
ہاورڈ ہیوز (Howard Hughes) اپنی زندگی کے آخری سالوں میں مختلف ہوٹلوں میں رہائش پذیر رہے۔ ان کا یہ پرسرار اور تنہائی کا شکار یہ طرزِ زندگی 1966 کے آس پاس شروع ہوا جب انہوں نے لاس ویگاس میں ڈیزرٹ ان ہوٹل (Desert Inn Hotel) میں قیام کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد، وہ مختلف شہروں میں مختلف ہوٹلوں میں مقیم رہے، جن میں لاس اینجلس، ناسو، لندن، نکوسیا، اور دیگر مقامات شامل تھے۔
ہاورڈ ہیوز نے اپنی زندگی کے آخری تقریباً 10 سال گھر سے باہر دوستوں کے ساتھ ان کے محلوں میں یا لگژری ہوٹلوں میں گزارے۔ ان کا یہ طرزِ زندگی ان کی بڑھتی ہوئی پراسراریت اور تنہائی پسندی کی وجہ سے مشہور تھا۔
ہاورڈ ہیوز (Howard Hughes) کا انتقال 5 اپریل 1976 کو ہوا۔ اس وقت وہ میکسیکو کے شہر اکاپولکو (Acapulco, Mexico) میں ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ ان کا انتقال ان کی ذاتی ہوائی جہاز میں اس وقت ہوا جب انہیں طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔
🔹تنسی ولیمز (Tennessee Williams) جو ایک
مشہور امریکی ڈراما نگار تھے، جو “اے اسٹریٹ کار نیڈ ڈیزائر” (A Streetcar Named Desire) اور “کیٹ آن اے ہاٹ ٹِن روف” (Cat on a Hot Tin Roof) جیسے کلاسک ڈراموں کے لیے مشہور ہیں نے اپنی زندگی کے آخری 15 سالوں کا بڑا حصہ نیویارک کے ہوٹل الیسی (Hotel Elysée) میں گزارا۔ وہ اس ہوٹل میں قیام پذیر تھے کیونکہ وہ اپنے کام کے لیے ایک پرسکون اور مستقل جگہ چاہتے تھے۔ تنسی ولیمز کا انتقال 25 فروری 1983 کو ہوٹل الیسی میں ہی ہوا۔
تنسی ولیمز کی زندگی میں ہوٹل الیسی ان کا گھر بن گیا تھا، جہاں انہوں نے اپنے آخری سال گزارے اور اپنی بہت سی تخلیقات مکمل کیں۔
🔹آرٹیکل کے آخر میں ، میں ایک گمنام جاپانی خاتون حساکو ہاسےگاوا کی پراسرار زندگی کے بارے میں بتانا چاہوں گا جو لگ بھگ 40 سال نیویارک کے قلب میں ایک بہترین لگژری ہوٹل، بیلویڈیر ہوٹل (Belvedere Hotel) کے کمرہ 208 میں رہی۔ ان کے بارے میں زیادہ معلوم نہیں ہو سکا، یہاں تک کہ ان لوگوں کو بھی جو روزانہ انہیں راہداریوں میں ملتے یا ان کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ 1934 میں جاپان میں پیدا ہوئی تھیں، اور 1970 کی دہائی میں نیویارک منتقل ہوئیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ سب کے ساتھ مہربان اور خوش اخلاق تھیں۔ ہوٹل کے عملے کو وہ پسند تھیں کیونکہ وہ ہمیشہ ان کا خیرمقدم کرتی تھیں اور ان کی چھوٹی چھوٹی مہربانیوں کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتی تھیں۔
ہوٹل میں مقیم ایک اور خاتون رینی کویریجرو، جو ان کے سامنے والے کمرے میں رہتی تھیں اور ہاسےگاوا کبھی کبھی ان سے مختصر بات چیت کر لیا کرتی تھیں، لیکن انہوں نے اپنے بارے میں زیادہ کبھی کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ یہاں تک کہ ایک دن 2016 میں، ہاسےگاوا اپنے اپارٹمنٹ میں 82 سال کی عمر میں مُردہ پائی گئیں۔
انہیں نیویارک کے ہارٹ آئی لینڈ، امریکہ کے سب سے بڑے عوامی قبرستان، میں دفن کیا گیا۔ مجھے ان کی کہانی ریڈیو ڈائریز کے پروگرام "دی ان مارکڈ گریویارڈ" سے ملی ہے۔
افسوس؛ یہ گمنامی ان کی موت کے بعد بھی ان کے ساتھ رہی۔
میں ممنون ہوں اپنے آفس کی گرافکس انچارج ، اقرأ نواز کا جنہوں نے مضمون کی تصاویر کو آپ کے لئیے آسان کر کے پیش کیا۔
(سید شایان نے یہ آرٹیکل رئیل اسٹیٹ ریسرچ پورٹل اور تھنک ٹینک SyedShayan.com کے لئیے تحریر کیا)
SyedShayan.com uses cookies and similar tracking technologies to access or store information. Detailed information about our use of these technologies and how you can refuse certain cookies is available in our Cookie Notice.
Good Article
25d
Like
Reply
Good Article