Home
پبلشنگ کی تاریخ: 7 جولائی, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 14 گھنٹے 50 منٹ (اب تک 69 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]

ہمارے ہاں بزنس عموماً تیسری نسل پر کیوں ختم ہو جاتے ہیں؟


زیادہ تر فیملی بزنسز دوسری یا تیسری نسل میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں، جسے “Three Generation Rule” کہا جاتا ہے۔


فیملی بزنس کے حوالے سے عالمی سطح پر کی گئی کئی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ:
▫ 70% خاندانی کاروبار پہلی نسل کے ساتھ ہی ختم ہو جاتے ہیں اور تقریباً %30 کاروبار دوسری نسل تک پہنچتے ہیں۔


▫ دوسری نسل تک پہنچنے والے کاروبار  %88 اپنی تیسری نسل تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں۔
اور صرف %12 کاروبار تیسری نسل تک زندہ رہتے ہیں۔
▫ اور محض %3 سے %5 کاروبار چوتھی نسل یا اس سے آگے تک قائم رہتے ہیں۔ اور 95 فیصد سے لیکر 97 فیصد تک کاروبار تیسری نسل پر ختم ہو جاتے ہیں۔


یہ بہت دلچسپ تحقیقات ہیں جو کئی بین الاقوامی سرویز اور تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوئی ہیں، ان میں خاص طور پر PwC (پرائس واٹر ہاؤس کوپرز) فیملی بزنس سروے، فیملی فرم انسٹیٹیوٹ (FFI) کے عالمی اعداد و شمار، اور ہارورڈ بزنس اسکول کی کچھ تحقیقات بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں فیملی بزنس پر کی گئی مطالعاتی رپورٹس، خصوصاً فیملی بزنس انسٹیٹیوٹ (USA) کی تحقیق بھی اس بات کی تصدیق کرتی نظر آتی ہے کہ کاروباروں کی اکثریت تیسری نسل تک پہنچنے سے پہلے ہی زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔


اس طرح کی کچھ رپورٹس کے مطالعے کے بعد مجھے تحریک ہوئی کہ اس قدر اہم موضوع پر میں پاکستان کی بزنس فیملیز اور اس ملک کے فیملی بزنس ماڈل پر تحریر کروں اور اپنے خیالات پڑھنے والوں سے شیئر کروں۔


لیکن اس سے قبل انگریزی زبان کی ایک مشہور کہاوت پڑھنے والوں سے شیئر کرنا چاہتا ہوں:
“Shirtsleeves to shirtsleeves in three generations.”
اس کہاوت میں اس حقیقت کی عکاسی کی گئی ہے کہ:
1- پہلی نسل محنت اور جدوجہد سے دولت کماتی ہے۔


2- دوسری نسل اس دولت کو برقرار رکھنے اور بڑھاوا دینے کی کوشش کرتی ہے۔
3- تیسری نسل اس دولت کو ضائع کر دیتی ہے، اور خاندان دوبارہ اسی حالت میں آ جاتا ہے جہاں سے اس نے آغاز کیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، جو دولت ایک نسل نے محنت سے بنائی، وہ اکثر تیسری نسل تک آتے آتے ختم ہو جاتی ہے۔


اور لطف کی بات یہ ہے کہ جاپانی معاشرے میں بھی، جہاں بعض خاندانوں میں ان کے کاروبار چالیس نسلوں تک پھیلے ہوئے ہیں، یہ کہاوت ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے:
“Rice paddies to rice paddies in three generations”
(یعنی: تین نسلوں میں کھیت سے کھیت تک واپس آنا)
جو اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ پہلی نسل محنت سے دولت کماتی ہے، دوسری اسے سنبھالتی ہے، جبکہ تیسری نسل اکثر اسے برباد کر دیتی ہے، اور یوں خاندان دوبارہ اپنے ابتدائی حالات پر آ جاتا ہے۔
یہ کہاوت اس تصور کو ظاہر کرتی ہے کہ ایک خاندان میں پہلی نسل سخت محنت سے دولت بناتی ہے، دوسری اسے سنبھالتی ہے، اور تیسری نسل لاپرواہی یا عیش و آرام میں وہ سب کچھ گنوا دیتی ہے، اور یوں خاندان دوبارہ اپنے ابتدائی حالات پر آ جاتا ہے۔


چین جیسے صنعتی اور کاروباری ملک میں بھی ایک معروف کہاوت عام ہے:
“دولت تین نسلوں سے آگے نہیں چلتی۔”
چینی فلسفے، خصوصاً کنفیوشس اور تاؤ مت، میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ محنت کے بغیر وراثت میں ملی دولت نئی نسل کو غیر ذمہ دار اور آرام طلب بنا دیتی ہے۔ اگر دولت کے ساتھ اخلاقی اقدار، تربیت، اور قیادت منتقل نہ کی جائے، تو خاندان تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔
یہی نکتہ عالمی سطح پر چین کے بارے میں کہے جانے والے جملے
“Riches don’t last for more than three generations”
میں بیان ہوتا ہے، جو انگریزی کہاوت “Shirtsleeves to shirtsleeves in three generations” کے ہم معنی ہے۔


یہ کہاوتیں امریکہ، یورپ، ایشیا، افریقہ، غرض ہر خطے، ہر جگہ، ہر دیس میں ایک جیسی سچائی بیان کرتی ہیں۔


لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ زیادہ تر فیملی بزنس تیسری یا چوتھی نسل تک قائم نہیں رہ پاتے؟
اس کی 7 وجوہات بہت واضح ہیں:
1. نئی نسلوں کی دلچسپی کم ہو جاتی ہے
2. مارکیٹ کے حالات بدل جاتے ہیں
3. قیادت (Leadership) کی کمی
4. بزنس کو وقت کے ساتھ جدید نہ کرنا
5. فیملی جھگڑے اور انتشار
6. وراثتی تقسیم
7. غیر ملکی یونیورسٹیز میں بچوں کو تعلیم دلوانا


1. نئی نسلوں کی دلچسپی میں کمی
اکثر خاندانی کاروبار بانی کی ذاتی محنت، وژن اور تجربے پر قائم ہوتے ہیں، جبکہ بعد کی نسلیں نہ صرف اس وژن سے دور ہوتی ہیں بلکہ ان کے رجحانات، تعلیمی پس منظر اور ترجیحات بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر وہ بچے جو اعلیٰ تعلیم کے لیے غیر ملکی یونیورسٹیوں کا رُخ کرتے ہیں، ان میں کاروبار سے جذباتی یا پیشہ ورانہ وابستگی کم ہو جاتی ہے۔ مغربی طرزِ فکر، مختلف پیشہ ورانہ راستے، اور خودمختاری کا رجحان انہیں خاندانی کاروبار سے دور کر دیتا ہے۔ اس بے رغبتی کے باعث کاروبار کا تسلسل برقرار نہیں رہتا اور ادارہ بتدریج کمزور ہو جاتا ہے۔


2. مارکیٹ کے حالات بدل جاتے ہیں
خاندانی کاروبار عموماً ایک نسل کی ضروریات، حالات اور وژن کے مطابق ترتیب دیے جاتے ہیں، لیکن ہر نسل کا معاشی اور سماجی پس منظر مختلف ہوتا ہے۔ ایک نسل تقریباً 35 سے 40 سال تک کاروباری قیادت سنبھالتی ہے، پھر دوسری اور تیسری نسل آتی ہے۔ یوں 100 سال سے زیادہ کا عرصہ درمیان میں حائل ہو جاتا ہے۔ ایک صدی کے دوران مارکیٹ، ٹیکنالوجی، قانون، خریدار، اور صارفین کی ترجیحات سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔


جو کاروباری ماڈل پہلی نسل کے لیے کامیاب تھا، وہ تیسری نسل کے لیے بوجھ بن سکتا ہے۔ اگر خاندانی کاروبار بروقت ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہ ہو، تو وہ اپنی افادیت کھو بیٹھتا ہے۔
مثال کے طور پر: اگر پہلی نسل نے کپڑے کا کاروبار شروع کیا تھا اور وہ تھوک منڈی (ہول سیل) پر منحصر تھا، تو وہ ماڈل اُس وقت کامیاب رہا جب خریداروں کو براہِ راست دکان پر آنا پڑتا تھا۔ لیکن آج کی تیسری نسل ایک ایسی دنیا میں جی رہی ہے جہاں آن لائن شاپنگ، فاسٹ فیشن، اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ نے روایتی ہول سیل ماڈل کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر کاروبار نے وقت کے ساتھ ای-کامرس، برانڈنگ، اور صارف کی بدلتی نفسیات کو نہ اپنایا، تو مارکیٹ میں اس کی جگہ ختم ہو جاتی ہے۔


3. قیادت (Leadership) کی کمی
خاندانی کاروبار کی بقاء کے لیے بصیرت رکھنے والی قیادت ناگزیر ہے، لیکن بانی کے بعد اکثر ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے پُر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ نئی نسل میں ہر فرد قائدانہ صلاحیت نہیں رکھتا، اور بعض اوقات وارثین میں قیادت کے لیے رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے، جو کاروبار کو تقسیم اور کمزور کر دیتی ہے۔
اکثر بانی حضرات ادارے کو اپنے نام، فیصلوں، اور تجربے پر مرکوز رکھتے ہیں، اور ادارہ جاتی قیادت یا جانشینی (Succession Planning) کی تیاری نہیں کرتے۔ نتیجتاً اُن کے بعد کاروبار بے سُمت ہو جاتا ہے اور فیصلہ سازی بکھر جاتی ہے۔ یہ خلا نہ صرف تنظیمی اعتبار سے خطرناک ہوتا ہے بلکہ عملے، کلائنٹس، اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متاثر کرتا ہے۔
4. بزنس کو وقت کے ساتھ جدید نہ کرنا
کامیاب کاروبار وہی ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ اپنی حکمتِ عملی، مصنوعات، سروسز، اور ٹیکنالوجی کو جدید بناتے رہیں۔ بدقسمتی سے خاندانی کاروبار اکثر اپنے پرانے طریقوں، مشینری، اور سوچ میں جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔


جب دنیا آٹومیشن، ڈیجیٹلائزیشن، ای-کامرس، اور ڈیٹا ڈرِون فیصلوں کی طرف بڑھ رہی ہو، تو وہ کاروبار جو اب بھی رجسٹر پر نقد لکھنے، پرانے سسٹمز چلانے اور مارکیٹ کی تحقیق سے دور رہنے پر اصرار کرے، وہ مارکیٹ میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
ایسا جمود نہ صرف مسابقتی برتری کو ختم کرتا ہے بلکہ نئی نسل کو بھی کاروبار سے بددل کر دیتا ہے، کیونکہ وہ خود جدید سوچ اور نظام کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔


5. فیملی جھگڑے اور انتشار
خاندانی کاروبار میں اکثر جذبات، رشتے، اور کاروباری فیصلے ایک دوسرے میں گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ جب منافع، اختیارات، یا قیادت کی تقسیم پر اختلافات پیدا ہوتے ہیں، تو وہ صرف اختلاف نہیں رہتے — وہ جھگڑے بن جاتے ہیں، جو پورے کاروبار کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔
بعض اوقات بھائی بھائی کے خلاف، یا چچا بھتیجے کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ فیصلے ذاتی انا یا رنجش کی بنیاد پر ہوتے ہیں، نہ کہ کاروباری حکمتِ عملی پر۔ نتیجتاً، عدالتوں میں مقدمات، ایک دوسرے پر الزام تراشی، اور مشترکہ اثاثوں کی تقسیم جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، جو نہ صرف کاروبار بلکہ پورے خاندان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔


جب گھر کا سکون بگڑ جائے، تو کاروبار کا استحکام بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے۔
6. وراثتی تقسیم


مسلم معاشروں، خصوصاً پاکستان میں، خاندانی کاروبار کے تسلسل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ شرعی وراثت کا نظام ہے۔ چونکہ اکثر کاروبار شخصی حیثیت میں بانی کے نام پر ہوتے ہیں، اس لیے ان کی وفات کے بعد جب ترکہ شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم ہوتا ہے تو کاروبار کے اثاثے اور اختیارات کئی وارثوں میں بٹ جاتے ہیں۔ یہ تقسیم قیادت کا خلا، فیصلہ سازی کی الجھن، اور ادارہ جاتی تسلسل میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔


بعض اوقات بانی افراد نیکی یا روحانی جذبے کے تحت کاروبار کو مکمل طور پر خیرات یا وقف کر دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ اقدام دینی لحاظ سے باعثِ اجر سمجھا جاتا ہے، مگر عملی طور پر کاروبار کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے — خاص طور پر جب وقف کی شرائط کاروباری فیصلوں، سرمایہ کاری، اور انتظامی لچک سے مطابقت نہ رکھتی ہوں۔ نتیجتاً، کاروبار یا تو بکھر جاتا ہے، یا مکمل طور پر جمود کا شکار ہو کر اپنی تجارتی اہمیت کھو دیتا ہے۔


7. غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تعلیم
غیر ملکی یونیورسٹیوں میں بچوں کو تعلیم دلوانا بھی خاندانی کاروبار کے تسلسل میں ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ جب نئی نسل بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتی ہے، تو اکثر ان کی دلچسپیاں، طرزِ زندگی، اور پیشہ ورانہ رجحانات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ یا تو کاروبار میں واپسی کو ترجیح نہیں دیتے، یا اگر واپس آئیں بھی تو خاندانی ڈھانچے اور فیصلوں میں ہم آہنگی قائم رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ نئی نسل اپنے بزرگوں کو بہت اہمیت دینے کو تیار نہیں ہوتی اور خود کو ان سے زیادہ ایڈوانس تصور کرتی ہے۔


اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ والدین اپنی جانشینی سے متعلق غیر یقینی کا شکار ہو جاتی ہے، اور کاروبار بغیر تیاری کے اگلی نسل کے سپرد ہو جاتا ہے۔ جو اکثر اس کا بوجھ سنبھال  نہیں پاتی اور کاروبار زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔


برصغیر پاک و ہند کے معاشروں میں جو دادا اپنے پوتے کو گود میں بٹھا کر فخر سے دوستوں کو بتاتا ہے کہ یہ میری وراثت کا مالک بنے گا، وہ اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ فخر سے زیادہ اسے کاروباری تربیت کی ضرورت ہے۔ اگر تربیت نہ ہو تو وہی پوتا، جس پر فخر کیا جا رہا ہوتا ہے، کل کو اسی کاروبار کا ڈھانچہ گرا کر کچھ اور بنانے کی کوشش کرے گا — یا بدترین صورت میں، سب کچھ ختم کر دے گا۔ بعض بازاروں میں میں نے “دادا اینڈ پوتا” کے نام سے کاروبار کے بورڈ بھی آویزاں دیکھے ہیں۔


لیکن آج دنیا بھر میں خاندانی کاروبار کے موضوع کو نہایت سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ یہ سوال کہ نئی نسل کی تربیت کا مؤثر اور مثبت طریقہ کیا ہو سکتا ہے، تحقیق، مشاورت اور عملی رہنمائی کا ایک مکمل شعبہ بن چکا ہے۔ جانشینی کی منصوبہ بندی، خاندانی ہم آہنگی، اور مالیاتی استحکام جیسے موضوعات پر عالمی سطح پر ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام فیملی بزنس نیٹ ورک (FBN) کا ہے، جو خاندانی اداروں کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ صرف کاروبار کو چلانے والے نہ ہوں، بلکہ ایک ایسی پائیدار میراث چھوڑیں جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنے۔


مسلم دنیا میں بھی یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جدید حکمتِ عملیوں کو اپنایا جا سکتا ہے۔ کاروبار کو تقسیم در تقسیم سے بچا کر ایک ایسی سمت دی جا سکتی ہے جہاں استحکام، خاندانی ربط اور سماجی بھلائی سب یکجا ہو سکیں۔ یہ ایک شعوری سفر ہے، جس کی شروعات آج کرنا لازم ہے تاکہ آنے والی نسلیں نہ صرف بہتر مالی مستقبل حاصل کریں بلکہ خاندانی ورثے کو بھی سنبھال سکیں۔
اسی مقصد کے لیے FBN جیسے ادارے مختلف ورکشاپس اور سپورٹ گروپس کا اہتمام کرتے ہیں، جن کا مقصد نوجوان وارث نسل کو یہ سمجھانا ہوتا ہے کہ خاندانی دولت ان کے لیے صرف اختیار نہیں بلکہ ایک ذمے داری بھی ہے۔ یہ تربیت انہیں اس سمت لے جاتی ہے جہاں وہ اپنے خاندان کے لیے اثاثہ بن سکیں، نہ کہ محض ایک وارث جس کی حیثیت ایک لاوارث سے زیادہ کی نہیں۔


اسی سوچ کے تحت FBN نے Polaris کے نام سے ایک عہد نامہ بھی متعارف کروایا ہے۔ یہ کوئی قانونی یا مذہبی حلف نہیں بلکہ ایک رہنما وعدہ ہے، جو خاندان کے افراد کو ایک مشترکہ وژن پر اکٹھا کرتا ہے۔ یہ وعدہ عام طور پر خاندان کے افراد مل کر کرتے ہیں، کہیں کہیں اس پر دستخط بھی کیے جاتے ہیں، تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آ سکے۔


یہ عہد دراصل قطبی ستارے کی مانند ہے جو اندھیرے میں سمندری جہازوں کو راستہ دکھاتا ہے۔ اسی طرح، Polaris خاندانی کاروباروں کو ایسی رہنمائی فراہم کرتا ہے جو انہیں پائیدار، بامقصد اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بناتی ہے۔

1 Comment

69 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔

روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔