تحریر: سید شایان

کل مطالعے کا دورانیہ: 8 گھنٹے 3 منٹ (اب تک 36 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )
[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]
لاہوری چاچا: قسط 4
لاہوری چاچا کی رہائی کے بعد سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل سوسائٹی کا اصل امتحان شروع ہو چکا ہے۔
خاتون وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے کی ویڈیو کے واقعے سے درج ذیل چاروں فریقین نے کیا سیکھا؟ یہ ہے وہ موضوع جس پر میں آج بات کروں گا۔
▫️ فرد (محمد ساجد نواز عرف چاچا)
▫️ ریاست (مسلم لیگ نون حکومت)
▫️ معاشرہ (سول سوسائٹی)
▫️ سوشل میڈیا (ڈیجیٹل سوسائٹی)
لاہوری چاچا، جن کا اصل نام محمد ساجد نواز ہے، کو 15 جولائی دوپہر بارہ بجے کے قریب حکومتی قید سے رہائی مل گئی۔ انہیں ماڈل ٹاؤن لاہور کی ایک عدالت کے جوڈیشل مجسٹریٹ قیصر ریاض نے گرفتاری کے مقدمے سے بری کر دیا۔
اپنی رہائی کے بعد محمد ساجد نواز نے جو انٹرویو ایک ویب سائٹ “اردو پوائنٹ” کو دیا، اس انٹرویو میں ان کے الفاظ نہایت تشویشناک اور معاشرتی بے حسی کی عکاسی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا “میں نے تو کوئی جرم کیا ہی نہیں، تو پریشانی کیسی؟” اور جب “اردو پوائنٹ” کے نمائندے نے ان سے پوچھا کہ اب رہائی کے بعد آپ وزیر اعلیٰ مریم نواز کے بارے میں کیا کہیں گے، تو ان کا جواب تھا: “میں نے اپنی ویڈیو میں جب ان کا نام لیا ہی نہیں، تو پھر کیا کہوں گا۔”
یہ وہ طرزِ فکر اور اخلاقی گراوٹ ہے جو ہماری سوسائٹی کو زوال کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اپنے کیے گئے غلط کام پر پشیمان نہ ہونا بلکہ اسے justify کرنا، معذرت سے انکار اور شکریہ کرنے سے گریز۔
کیا کسی وکیل، کسی صحافی، کسی استاد یا سول سوسائٹی کے کسی رکن نے ساجد نواز کو یہ سمجھایا کہ تمہارا عمل صرف قانونی نہیں، اخلاقی طور پر بھی غلط اور قابلِ اعتراض تھا؟ اور قانوناً قابلِ گرفت بھی تھا اور اس پر قانونی کارروائی ہو سکتی تھی؟
سخت سے سخت بات بھی اس انداز میں کی جا سکتی ہے کہ قانون کی گرفت میں آئے بغیر آپ اپنا مقصد حاصل کر لیں۔
اس ویڈیو کی بنیاد پر ساجد نواز المشہُور چاچا لاہوری پر فردِ جرم عائد ہو سکتی تھی۔ لیکن اچھا ہوا حکومت نے عقلمندی سے کام لیا اور معاملہ اپنے اختتام کو پہنچا۔
اس ویڈیو کو دیکھ کر ہماری نوجوان نسل جس طرح کا رسپانس سوشل میڈیا پر دے رہی ہے اور جو لغو زبان انہیں سیکھنے کو ملی، اس اخلاقی گراوٹ کی ذمہ دار بھی وہ ویڈیو ہے جو چاچا کے نام سے وائرل ہوئی۔ اور وہ گمنام یوٹیوبر، جس نے چاچا کی یہ ویڈیو اپلوڈ کی۔ ابھی تک گمنام ہی ہے اور لطف کی بات یہ کہ اس کی طرف کسی کا ذہن بھی نہیں گیا شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری سائبر کرائم ایجنسیاں نے اس کا سراغ لگانے میں کوئی دلچسپی بھی نہیں دکھائی۔
اگر آپ نے “لاہوری چاچا” کے عنوان سے لکھی گئی میری پچھلی تین اقساط دیکھی یا پڑھی ہوں، تو آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے مختلف زاویوں سے ان اقساط میں ریاست کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک عام انسان، جب ذہنی، معاشرتی یا جذباتی دباؤ میں ہوتا ہے، تو وہ بعض اوقات ایسا عمل کر بیٹھتا ہے جو بظاہر قابلِ اعتراض یا سوشل سائنسز کے مطابق غیر مہذب ہوتا ہے، لیکن نفسیاتی علوم (Behavioural Science) اس کی ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے بارے میں کچھ ہمدردی کے جذبات بھی روا رکھتی ہے۔
ان اقساط میں دنیا کے مختلف علوم، تجربات و مشاہدات اور مختلف یونیورسٹیز میں ہونے والی اسٹڈیز کے حوالے دے کر اعلیٰ قیادت کو ان دلائل سے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ چاچا کو سزا نہ دی جائے، کیونکہ وہ کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ محض وقتی حالات کی وجہ سے ستایا ہوا ایک شہری ہے جو نظام کی ستم ظریفی سے تنگ آ چکا تھا اور جلے دل سے وہ جملے منہ سے نکال بیٹھا جنہیں کہنا معاشرتی جرم ہے، اس لیے اس کے خلاف مزید قانونی کارروائی بند کی جائے۔
بہرحال ریاست نے بھی اس معاملے کو سمجھتے ہوئے اور سیاسی برداشت (Political Tolerance) کا مظاہرہ کرتے ہوئے محمد ساجد نواز عرف لاہوری چاچا کے خلاف مزید کارروائی نہ کرتے ہوئے اس کی رہائی کی اجازت دی، اور یوں سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ایک بے چینی کا خاتمہ ہوا۔
محمد ساجد نواز عرف لاہوری چاچا اب رہا ہو کر اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔
لیکن کچھ سوالات جو لاہوری چاچا کے اس فعل کے حوالے سے اٹھتے ہیں، وہ غور طلب ہیں۔
چاچا کی رہائی کے بعد اس مقدمے کے چار فریقین
اپنی اپنی ذمہ داری آئندہ کس طرح نبھائیں گے؟
1- خود چاچا کو آئندہ کیا سوچنا اور کرنا چاہیے؟
2- ریاست اس طرح کے کیسز میں اپنا کردار کیسے طے کرے گی؟
3- سول سوسائٹی کی ذمہ داری کیا ہے؟
4- سوشل میڈیا کو کس حد تک ایک واقعے پر اپنا ردِ عمل دینا چاہیے؟
1. چاچا کی ذاتی ذمہ داری:
رہائی کے بعد جب لاہوری چاچا نے ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ “میں نے تو کوئی جرم کیا ہی نہیں” تو یہ ان کا ایک دفاعی بیان تو ہو سکتا ہے لیکن شاید وہ اب بھی اپنے الفاظ اور عمل کی سنگینی کو نہیں سمجھ پائے۔
چاچا کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ جو کچھ اُنہوں نے کہا وہ غصے کا بے ساختہ اظہار ضرور تھا لیکن انہوں نے ایسی زبان کا استعمال کیا تھا جو ہمارے اجتماعی اخلاقی شعور کو مجروح کرتی ہے۔ انہوں نے ایک خاتون، وہ بھی صوبے کی وزیرِ اعلیٰ، کے لیے ایسی زبان استعمال کی جو کسی بھی مہذب معاشرے میں ناقابلِ قبول سمجھی جاتی ہے۔ قانونی یا سیاسی بحث اپنی جگہ، لیکن اخلاقی سطح پر یہ عمل سنگین تر تھا۔
اگر وہ رہائی کے بعد ندامت کا اظہار کرتے، اپنے الفاظ پر معذرت کرتے، تو شاید وہ آج ایک عام شہری کے بجائے ایک باشعور اور بااخلاق فرد کے طور پر بھی ابھرتے۔ مگر انہوں نے سیکھنے کی بجائے انکار کا راستہ چُنا اور یہی وہ روش ہے جو کسی بھی معاشرتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
آزادی اظہار کی آپ کو اجازت آپ کا قانون دیتا ہے لیکن آزادی اظہار کا مطلب توہین کی آزادی ہرگز نہیں ہوتا۔
اور یہ وہ بنیادی اصول ہے جس پر جدید جمہوریتوں کا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ آزادی اظہار کا دفاع ضرور کیا جانا چاہیے، لیکن جب وہ آزادی کسی دوسرے کی عزتِ نفس کو پامال کرے تو وہ “آزادی” نہیں بلکہ “بے ادبی” اور “بدتمیزی” کہلاتی ہے۔
چاچا کو آئندہ زندگی میں یہ سیکھنا ہوگا کہ معذرت کرنا کمزوری نہیں، بلکہ تہذیب کی بلند ترین علامت ہے۔اور اگر وہ اس واقعہ سے کچھ سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیں تو بظاہر ان کے سامنے چار راستے ہیں۔
1- چونکہ ساجد نواز ایک عام شہری کے طور پر اپنی سادہ اور بے باک آواز کی وجہ سے مشہور ہوئے ہیں
وہ اب چاہیں تو آئندہ بھی سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی مسائل، جیسے کہ سیلاب، ڈرینج کے مسائل، یا حکومتی بدانتظامی پر بات کر سکتے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ایک ایکٹیوسٹ کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی ویڈیوز کے ذریعے عوام کو متوجہ کر سکتے ہیں اور مقامی مسائل جیسے کہ پانی کی قلت، بنیادی ڈھانچے کی خرابی، یا روزمرہ زندگی کے مسائل پر بات کر سکتے ہیں۔
2- اگر وہ شائستہ زبان میں سادگی اور ایمانداری کے ساتھ کسی مسئلے کو حکومتی توجہ کا مرکز بنانا چاہیں تو وہ ایک بڑے سماجی کارکن یا غیر سیاسی عوامی شخصیت کے طور پر مقبولیت حاصل کر سکتے ہیں، جو عام لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرے۔ اس کے لیے انہیں سیاسی جماعتوں سے فاصلہ رکھنا ہوگا تاکہ ان کی بات کو سیاسی ایجنڈوں سے جوڑ کر نہ دیکھا جائے
وہ اپنی گرفتاری اور مبینہ ناانصافی کو بنیاد بنا کر اگر آزادیِ رائے یا عام شہریوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، تو وہ ایک سماجی تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ یہ کردار انہیں ایک ایسی شخصیت بنا سکتا ہے جو عام لوگوں کے لیے ناانصافی کے خلاف لڑتی ہے، جیسے کہ کچھ پاکستانی صحافی یا سماجی کارکن (مثلاً، عبدالستار ایدھی، ملالہ یوسفزئی، عاصمہ جہانگیر، ایاز لطیف پلیجو، جبران ناصر، عشبہ کامران، پروین رحمٰن، ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، ڈاکٹر ادیب رضوی)
3- اگر ساجد نواز کسی سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اختیار کرتے ہیں، تو ان کا کردار ایک سیاسی کارکن یا ترجمان کے طور پر تبدیل ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ ان کی عوامی امیج کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، کیونکہ پاکستانی عوام میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی اکثر شک کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے، اور ان کی غیر جانبدار آواز کمزور ہو سکتی ہے۔
4- یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی گرفتاری اور سوشل میڈیا پر شدید عوامی ردعمل کے بعد، ساجد نواز ممکن ہے کہ ایک کم پروفائل یا خاموش زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں جہاں وہ اپنی ملازمت (اگر دوبارہ بحال ہو)، ذاتی سکون، اور خاندانی معاملات پر توجہ دیں۔
پاکستانی معاشرے میں یہ ایک عام رجحان رہا ہے کہ وہ شخصیات جو کسی لمحاتی تنازعے یا وائرل شہرت کا شکار بن جاتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوامی زندگی سے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دیتی ہیں۔
(جاری ہے۔۔ باقی اگلی قسط میں)
3
1 Comment
36 Views
متفق