Home
پبلشنگ کی تاریخ: 15 جولائی, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 12 گھنٹے 45 منٹ (اب تک 36 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]

لاہوری چاچا: (قسط 3)

کیا اس کے عمل کے پیچھے کوئی سیاسی ایجنڈا کام کر رہا تھا؟


▫ہر فرد کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے، چاہے ہم اس سے اتفاق نہ بھی کرتے ہوں۔


▫ریاست کے لیے اب اصل امتحان یہی ہے کہ وہ گالی کا جواب برداشت سے دیتی ہے یا طاقت سے


▫لاہوری چاچا کے کیس میں قانون کو محض طاقت کے طور پر نہیں بلکہ اصلاح کے اوزار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ اسے مجرم بننے سے روکا جا سکے


▫امریکی قانون کے مطابق صدر یا کسی بھی سرکاری عہدیدار کو گالی دینا یا طنز کا نشانہ بنانا جرم نہیں، بلکہ اس عمل کو آزادیٔ اظہار (Freedom of Speech) سمجھا جاتا ہے


لاہوری چاچا کے معاملے نے پاکستان میں آزادیٔ اظہار (Freedom of Expression) اور توہین (Defamation) کے درمیان قانونی و اخلاقی حدود کو ایک بار پھر مرکزِ بحث بنا دیا ہے۔ اس شخص نے برستی بارش میں سڑک پر پانی میں ڈوبے ہوئے سفر کے دوران، بےبسی اور غصے کے عالم میں، پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ مریم نواز شریف کے لیے انتہائی نامناسب الفاظ استعمال کیے اور پاک فوج کے سربراہ کے بارے میں بھی سخت زبان اختیار کی۔ لیکن اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس پر واقعی سزا دی جا سکتی ہے، یا یہ ایک دکھی شہری کی جذباتی دہائی تھی جسے سمجھنے کی ضرورت ہے؟


پاکستان میں اگر کوئی شخص کسی حکومتی شخصیت، جیسے وزیرِ اعظم یا صدر کو عوامی طور پر برا بھلا کہتا ہے یا گالی دیتا ہے، تو یہ عمل براہِ راست “قومی قیادت کی توہین” کے نام سے جرم قرار نہیں دیا گیا، مگر اسے توہینِ عزت (Defamation) اور دانستہ توہین (Intentional Insult) کے قوانین کے تحت قابلِ سزا سمجھا جا سکتا ہے۔


پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 19 اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے، لیکن یہ آزادی مطلق نہیں۔ اس پر کچھ پابندیاں موجود ہیں، جیسے قومی سلامتی، عدلیہ یا فوج کے اداروں کی حرمت، اور عوامی اخلاقیات۔ جب کوئی شخص کسی مخصوص فرد یا ادارے کے خلاف کھلی گالی یا تضحیک آمیز زبان استعمال کرتا ہے تو یہ آزادیٔ اظہار سے آگے نکل کر قابلِ سزا جرم بن سکتا ہے۔


وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کے بارے میں توہین آمیز الفاظ اگرچہ عام زبان میں محض “گالی” سمجھے جا سکتے ہیں، لیکن قانونی دائرے میں یہ “ہتکِ عزت” کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 500 کے تحت کسی فرد کی عزت کو نقصان پہنچانے پر سزا دی جا سکتی ہے۔ اگر یہ عمل آن لائن یا کسی ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر ہوا ہو، تو پاکستان کا “پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016” (PECA 2016) خاص طور پر دفعہ 20 کے تحت اس پر کارروائی ممکن ہے، جس میں 3 سال تک قید یا جرمانہ، یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔


فوج کے سربراہ کے خلاف الزام تراشی کو ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیزی کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح PECA کی دفعہ 37 سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے والی گفتگو پر بھی پابندی عائد کرتی ہے۔


پاکستان کے موجودہ سیاسی اور عدالتی مزاج کو مدِنظر رکھتے ہوئے، ایسا لگتا ہے کہ ریاست اور اس کے ادارے اس قسم کے بیانیے کو محض جذباتی ردِعمل نہیں بلکہ منظم بدنظمی یا بدنامی کی مہم سمجھ رہے ہیں۔ اگرچہ ماضی میں کئی بار عام شہریوں کی ایسی باتوں کو درگزر کر دیا گیا، مگر حالیہ سخت قوانین اور ان کی تشریحات کے تحت اب عدالتیں بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر صرف “الفاظ” پر فیصلے سنانے لگی ہیں۔


عدالت اگر معاملہ سنے تو وہ درج ذیل پہلوؤں کو دیکھ سکتی ہے:


1- کیا یہ ایک عام شہری کا جذباتی ردِعمل تھا؟
2- کیا الفاظ مخصوص ادارے یا فرد کو بدنام کرنے کے لیے جان بوجھ کر کہے گئے؟
3- کیا اس کے پیچھے کوئی سیاسی یا مذہبی ایجنڈا تھا؟
4- کیا ان الفاظ سے کسی ادارے کی ساکھ کو واقعی نقصان پہنچا؟


اگر ان سوالات کے جوابات ہاں میں ہوں، تو سزا یقینی ہے، ورنہ عدالت نرمی بھی دکھا سکتی ہے۔


قانونی رُو سے اگرچہ ایسے الفاظ پر سزا ممکن ہے، لیکن یہ معاملہ صرف قانون کا نہیں، اخلاقیات اور سماجی حساسیت کا بھی ہے۔ ایک عام، سادہ، محنت کش شہری جب بارش میں سڑک پر پانی میں ڈوبا ہو اور غصے سے پھٹ پڑے، تو کیا اسے جرم کہا جائے گا یا ایک معاشرتی المیہ سمجھا جائے گا؟
کیا ریاست کو ایسے جذبات کو دبانے کے بجائے ان کی وجوہات پر غور نہیں کرنا چاہیے؟


لہٰذا، لاہوری چاچا کی زبان اگرچہ قابلِ اعتراض تھی، لیکن اس پر ریاستی ردِعمل سزا اور گرفتاری تک نہیں جانا چاہیے۔ بہتر یہی ہے کہ عوام کی بات سنی جائے، اور وہ وجوہات سمجھی جائیں جن کی وجہ سے یہ واقعہ ظہور پزیر ہوا۔


دنیا کے کئی ممالک میں ریاستی سربراہان، صدور یا بادشاہوں کے خلاف سخت زبان یا گالی استعمال کرنا صرف سماجی بے ادبی نہیں بلکہ قانونی جرم بھی سمجھا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ، ترکی، ایران، مصر یا سعودی عرب جیسے ممالک میں اس طرح کے بیانات پر کئی سال قید کی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ مگر امریکہ میں اس معاملے پر نہایت مختلف اور حیرت انگیز حد تک آزاد رویہ اپنایا گیا ہے۔ وہاں نہ صرف صدر بلکہ حکومت کے کسی بھی نمائندے کو عوامی طور پر گالی دینا، مذاق اڑانا یا طنزیہ انداز میں تنقید کرنا قانونی طور پر جرم نہیں سمجھا جاتا، بشرطیکہ اس میں براہِ راست تشدد پر اکسانا یا جان سے مارنے کی دھمکی شامل نہ ہو۔


امریکی سماج میں یہ آزادی صرف آئینی یا قانونی پہلو سے نہیں بلکہ ایک ثقافتی فلسفے کے طور پر بھی تسلیم کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک کسی بھی حکومت یا ریاستی ادارے پر تنقید، چاہے وہ تلخ ہو یا سخت، جمہوریت کی روح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ “Not my President” جیسے نعرے، یا “F*ck the President” جیسے جملے، عوامی مظاہروں، سوشل میڈیا پوسٹوں، اور مزاحیہ پروگراموں میں عام دیکھے جا سکتے ہیں، اور ان پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی۔


پاکستان کو ایک تہذیب یافتہ معاشرہ بنانے کی راہ میں اصل امتحان یہ نہیں کہ ایک عام شہری نے کیا کہا، بلکہ یہ ہے کہ ریاست نے اس کے ردِعمل میں کیسا رویہ اپنایا۔ اگر قانون محض طاقت کی علامت بن جائے، تو وہ اصلاح، فہم اور مکالمے کی گنجائش کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے مواقع پر سماجی بالغ نظری کا تقاضا یہی ہے کہ قانون کو صرف سزا دینے کے آلۂ کار کے بجائے، سیکھنے، سدھارنے اور معاشرتی توازن قائم رکھنے والے نظام کے طور پر اپنایا جائے۔


ہمارے حکمرانوں کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اظہارِ رائے کی حد کہاں تک کھینچتے ہیں۔  محض اداروں کے احترام کی بنیاد پر، یا فرد کے جذبات اور سیاق و سباق کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے۔ کیا ہم ایسی ریاست چاہتے ہیں جو ہر اختلاف کو جرم سمجھے اور ہر تنقید کو دشمنی؟


امریکہ کا ماڈل چاہے ہمارے لیے قابلِ قبول ہو یا نہ ہو، مگر یہ ضرور سکھاتا ہے کہ ایک مضبوط جمہوریت کمزور زبان سے نہیں ڈرتی، بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔


دنیا بھر میں آزادیٔ اظہار اور سیاسی برداشت کے تصور کو سب سے خوبصورت اور مؤثر انداز میں جس ایک قول میں سمیٹا گیا ہے، وہ مشہور فرانسیسی فلسفی والٹئیر (Voltaire) سے منسوب ہے:


“میں تمہاری بات سے اختلاف رکھتا ہوں، مگر تمہیں اپنی بات کہنے کا حق ہے  اور میں تمہارا یہ حق مر کر بھی قائم رکھوں گا۔”


اگرچہ یہ الفاظ خود والٹئیر نے نہیں کہے، مگر ان کی سوانح نگار ایولین بیٹریس ہال (Evelyn Beatrice Hall) نے یہ جملہ ان کے خیالات کا نچوڑ بیان کرنے کے لیے تحریر کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ اقتباس والٹئیر کے فکری ورثے کی پہچان بن گیا، اور آج دنیا بھر میں اظہارِ رائے کی آزادی اور سیاسی برداشت (Political Tolerance) کی علامت سمجھا جاتا ہے۔


دنیا میں آزادیٔ اظہار کا جو نظریہ آج بیشتر مہذب جمہوریتوں کے آئینی ڈھانچے اور سماجی رویّوں کا حصہ ہے، اس کی فکری بنیاد یورپ کی Enlightenment تحریک میں رکھی گئی، جس کے والٹئیر نمایاں ترین علمبردار تھے۔ امریکہ، یورپ، آسٹریلیا، بھارت اور کئی دیگر ممالک میں یہ اصول بنیادی جمہوری قدر کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ ہر فرد کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے ، چاہے  ہم اس سے اتفاق نہ بھی کرتے ہوں۔


جاری ہے۔۔۔ باقی اگلی قسط میں

0 Comment

36 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔

روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔