Home
پبلشنگ کی تاریخ: 15 جولائی, 2025
تحریر: سید شایان
Image

کل مطالعے کا دورانیہ: 3 گھنٹے 9 منٹ (اب تک 23 قارئین نے یہ اردو مضمون پڑھا ہے )

[انگریزی ورژن کے اعداد و شمار الگ سے ریکارڈ کیے جا رہے ہیں]

لاہوری چاچا: (قسط 2)

وہ الفاظ جو پہلے خالص گالی تصور کیے جاتے تھے، اب طنز و مزاح کے اظہار کا ذریعہ بن چکے ہیں۔


▫گالی دینا گویا زبان سے مکا مارنے کے مترادف ہے۔


▫سوال یہ ہے کہ چاچا کے کہے گئے قومی قیادت کے بارے میں الفاظ قابلِ مذمت ضرور ہیں، لیکن کیا قابلِ تعزیر بھی ہیں؟


▫اسلام آباد کی یونیورسٹی COMSATS نے اپنی ایک تحقیق میں گالی کو محض بدتہذیبی کی بجائے
‏“self-defense mechanism” کے طور پر تسلیم کیا ہے۔


▫سٹینفورڈ اور کیمبرج سمیت دنیا کی تین یونیورسٹیوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ گالی دینے والے افراد اپنی اصل رائے زیادہ ایمانداری سے ظاہر کرتے ہیں اور زیادہ سچ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔


لاہوری چاچا نے جذبات میں آ کر ہماری قومی قیادت کے بارے میں جو الفاظ کہے، یقیناً کوئی بھی ذی شعور اس کی حمایت نہیں کرے گا، اور نہ اس مضمون میں، میں اس کی کسی حرکت کو justify کر رہا ہوں۔ بلاشبہ چاچا کے منہ سے ادا کیے گئے الفاظ تہذیب کے دائرے میں نہیں آتے اور ان کی مذمت لازمی ہے، لیکن ریاست کو بھی یہ سوچنا ہو گا کہ چاچا نے جو کہا وہ کسی تربیت یافتہ مقرر کی تقریر نہیں تھی، نہ وہ لکھا ہوا اسکرپٹ بول رہا تھا، اور نہ ہی اس کا کسی خاص سیاسی جماعت سے تعلق تھا۔  چاچا نے جو کہا وہ اس معاشرے کے ایک دکھی اور لاچار انسان کا بےساختہ کتھارسس (Catharsis) تھا، جو اس نے سرِراہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایک ویڈیو گرافر کو دیکھ کر اچانک اور غیر ارادی طور پر ظاہر کر دیا۔


اگر ہم لاہوری چاچا کے الفاظ کو صرف social sciences کے زاویے سے دیکھیں، تو وہ یقیناً abusive language کے زمرے میں آ سکتے ہیں، لیکن جب انہیں emotion regulation یا behavioral science کے تناظر میں پرکھا جائے، تو وہ معاشرے کے غیر مراعات یافتہ ایک دکھی انسان کے جذبات کا قدرتی اخراج (emotional release) دکھائی دیتے ہیں۔


2023 میں COMSATS یونیورسٹی اسلام آباد کے محققین کی جانب سے شائع ہونے والی تحقیق “Profanity as a Self‑Defense Mechanism” میں 253 پاکستانی شرکاء کا ڈیٹا تجزیہ کیا گیا۔


تحقیق نے گالی کو محض بدتہذیبی کے بجائے ایک “self-defense mechanism” اور “verbal catharsis” کے طور پر تسلیم کیا، جو کسی فرد کو نفسیاتی سکون فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں، Psychological Science اور دیگر عالمی تحقیقی اداروں کی رپورٹس نے بھی اس رجحان کی تصدیق کی ہے کہ بعض مواقع پر گالی دینا نہ صرف جذباتی ریلیف فراہم کرتا ہے بلکہ تناؤ سے فوری نجات کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
 

دنیا کی تین اہم یونیورسٹیز ، سٹینفورڈ گریجویٹ اسکول آف بزنس، کیمبرج یونیورسٹی اور Maastricht University کے ماہرین نے 2017 میں ایک باقاعدہ سائنسی تحقیق (peer-reviewed research study) کی، جسے
Social Psychological and Personality Science نامی معروف جرنل میں شائع کیا گیا۔ اس کا عنوان تھا:
“Frankly, We Do Give a Damn”
اس سٹڈی کا بنیادی مقصد یہ سمجھنا تھا کہ کیا گالی دینے کا تعلق ایمانداری یا سچ بولنے سے ہو سکتا ہے۔


اس سٹڈی کے مطابق جن افراد نے زیادہ گالیاں استعمال کیں، ایسے افراد میں کم سماجی منافقت، کم دھوکہ دہی، اور زیادہ صاف گوئی دیکھی گئی۔ اس سٹڈی میں مزید بتایا گیا کہ سوشل میڈیا ڈیٹا سے بھی یہی اندازہ ہوا ہے کہ گالی دینے والے افراد اپنی اصل رائے زیادہ ایمانداری سے ظاہر کرتے ہیں۔


ہم ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ گالی ایسے الفاظ یا جملہ ہوتا ہے جو کسی کی توہین، تضحیک یا دل آزاری کے لیے کہا جاتا ہے، لیکن اب جو نئی تحقیق بدلتے زمانے کے ساتھ سامنے آ رہی ہے، اس کے مطابق گالی ہمیشہ محض غصے یا بدتہذیبی کا اظہار نہیں، بلکہ بعض اوقات یہ ایک خالص اور غیر بناوٹی سچائی کی زبان بن جاتی ہے ، ایک ایسی زبان جو سماجی تقاضوں سے آزاد ہوتی ہے۔


ان تحقیقات اور مختلف سٹڈیز کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گالی کے معنی، استعمال اور سماجی حیثیت وقت کے ساتھ بدل رہی ہے؟ اور کیا اسے محض ایک ناپسندیدہ یا غیر مہذب عمل کے طور پر دیکھنا اب ایک محدود اور سطحی سوچ بننے جا رہی ہے؟


ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ آج کی ڈیجیٹل میڈیا کی دنیا میں صرف زبان، رہن سہن اور ثقافت ہی نہیں بدل رہے، بلکہ الفاظ کے مفاہیم، جذباتی اظہار کے طریقے، اور ردِعمل کے انداز بھی یکسر مختلف ہو چکے ہیں۔


وہ الفاظ جو پہلے خالص گالی تصور کیے جاتے تھے، اب کئی بار طنز، مزاح، احتجاج یا ذاتی اظہار کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
 

انگریزی زبان میں بہت سی گالیاں اب صرف براہِ راست توہین کے لیے استعمال نہیں ہوتیں، بلکہ مزاح، ہمدردی، حیرت، یا دوستی کے اظہار کے طور پر بھی استعمال ہو رہی ہیں۔ مثلاً لفظ “fuck” کو اب صرف گالی نہیں سمجھا جاتا، بلکہ یہ کسی جملے پر زور دینے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے: “This is fucking amazing”
اس طرح کی تبدیلیاں صرف زبان میں نہیں بلکہ ثقافتی رویوں میں بھی جھلکنا شروع ہوئی ہیں۔


یہ لسانی تبدیلی صرف زبان کے اندرونی ڈھانچے میں نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی رویّوں میں بھی نظر آنا شروع ہوئی ہے، جہاں الفاظ کی معنویت صرف لغت پر نہیں بلکہ ان کے استعمال کے انداز، وقت، مقام اور لہجے پر منحصر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی لفظ کو صرف گالی کہہ کر رد کرنا کافی نہیں، بلکہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ لفظ کس جذبے، مقصد یا ردِعمل کے تحت استعمال کیا گیا ہے۔


باقی آئندہ قسط میں ۔۔

 

0 Comment

23 Views

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

سمجھدار قیادت گالی کا جواب کبھی طاقت یا سختی سے نہیں، عقلمندی سے دیتی ہے۔

لاہوری چاچا، ایک شخص نہیں، ایک استعارہ بن گیا ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں بہت سے من چلے اور مایوس افراد اپنا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔


Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔

روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔