Home
پبلشنگ کی تاریخ: 20 جون, 2025
رائٹر: سید شایان
Image

ایران بمقابلہ اسرائیل: جنگ، جغرافیہ اور جدید ٹیکنالوجی


ڈیڑھ ہزار کلومیٹر  کے  فاصلے سے ایک ملک کا دوسرے کو نشانہ بنانا اس صدی کا سب سے انوکھا واقعہ ہے۔


ٹیکنالوجی اب محض ٹیکنالوجی نہیں رہی،  یہ اب ایک جدید ترین جنگی ہتھیار بن چکی ہے۔ جو کام پہلے مشین گنز، بم، ٹینک یا توپ کرتے تھے، آج وہ کام ایک کوڈ، ایک سرور، یا ایک بٹن کی ضرب سے ہو رہا ہے۔ اب دشمن کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا، نہ اس کے ہتھیار نظر آتے ہیں، نہ میدانِ جنگ کی کوئی سرحد واضح رہ گئی ہے۔ بس ایک خاموش کوڈ، ایک نظر نہ آنے والا بٹن، جو پلک جھپکتے میں نظاموں کو جلا دیتا ہے۔ کہیں بجلی غائب ہو جاتی ہے، کہیں پانی رُک جاتا ہے، اور کہیں پورا شہر، اپنی چمکتی روشنیوں سمیت، اچانک اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے،  جیسے کسی نے وقت کو لمحہ بھر کے لیے تھام لیا ہو۔ اب سائبر حملوں سے دشمن کی بجلی، پانی، انٹرنیٹ اور فوجی کمانڈ سسٹمز بند کیے جا سکتے ہیں۔ بیلسٹک اور ہائپرسونک میزائل ہزاروں کلومیٹر دور سے پلک جھپکتے میں شہر تباہ کر دیتے ہیں۔ جدید جنگ کا اصل میدان اب زمین پر نہیں، بلکہ ٹیکنالوجی کے نیٹ ورکس میں لڑا جا رہا ہے۔


اس کا مشاہدہ پہلے پاک بھارت کی تین روزہ جنگ کے دوران ہُوا اور اب اسرائیل ایران جنگ نے تو تمام اسرار سے پردے اٹھا دیے ہیں۔


یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ پورا اسرائیل، ایک مکمل ملک، رقبے اور آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے صرف ایک ڈویژن، یعنی راولپنڈی ڈویژن کے برابر ہے۔ راولپنڈی ڈویژن کا کل رقبہ تقریباً 22,300 مربع کلومیٹر ہے، جس میں راولپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال اور حال ہی میں الگ ہونے والا مری شامل ہیں۔ یہ رقبہ اسرائیل کے کل رقبے 22,145 مربع کلومیٹر سے تھوڑا سا زیادہ ہے۔ گویا، ایک مکمل ریاست پاکستان کے صرف ایک ڈویژن جتنی ہے۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے بھی دونوں قریب قریب ہیں۔ اسرائیل کی تازہ ترین آبادی تقریباً 1 کروڑ 2 لاکھ ہے، جبکہ راولپنڈی ڈویژن کی آبادی اندازاً 1 کروڑ 10 لاکھ کے قریب ہے۔ اس موازنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو پاکستان کے صرف ایک انتظامی ڈویژن جتنا ہے، بلکہ اس سے بھی چھوٹا۔
تو آخر وجہ کیا ہے کہ اسرائیل، ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود، اپنے سے کئی گنا بڑے ملک  سے جنگ آزما ہے؟ اس کی بڑی وجہ اس کی غیر معمولی دفاعی ٹیکنالوجی ہے، جس میں Iron Dome, David’s Sling اور Arrow جیسے جدید نظام شامل ہیں اور جو دشمن کے میزائلوں کو 80 سے 90 فیصد تک کامیابی سے روک سکتے ہیں۔( لیکن حالیہ جنگ میں بھاری نقصان اٹھانے پر اسرائیل کی دفاعی ٹیکنالوجی کی credibility اب ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔)
دوسری وجہ اسرائیل میں لازمی فوجی سروس ہے۔ مردوں کے لیے 32 اور خواتین کے لیے 24 ماہ جس سے ہر شہری دفاع کا عملی حصہ بن جاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ اسرائیل کو امریکہ سے سالانہ 3.3 سے 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے، جن میں 500 ملین ڈالر صرف میزائل دفاعی نظام پر خرچ ہوتے ہیں اور چوتھا، اسرائیل اپنی معیشت کا 6.0 سے 6.3 فیصد  ریسرچ پر خرچ کرتا ہے، جو OECD اوسط سے دُگنا ہے، اور یہی سرمایہ کاری  ٹیکنالوجی میں اسے ایران پر برتری دیتی ہے

 
ایران اور اسرائیل کی موجودہ جنگ کو  تین پہلوؤں سے دیکھا جاۓ تو اس جنگ کی حرکیات اور امکانات کو ایک غیر جانب دار تجزیہ نگار بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے


1- دونوں ممالک کا جغرافیہ 
‏(Strategic Geography)
2- دونوں ممالک کی آبادی کی کثافت یعنی population Density 
3- دونوں کی فائر پاور / ٹیکنالوجی 
‏Firepower/Technology


1- جغرافیہ  Strategic Geography :


▫ایران اور اسرائیل کے درمیان سرحد تو نہیں، مگر دشمنی براہِ راست ہے۔ 

 
اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان 1500 کلومیٹر کا فاصلہ حائل ہے  لیکن ایران اپنے میزائل، ڈرون اور پراکسی نیٹ ورک کے ذریعے عراق، شام، لبنان اور اردن کی فضائی حدود سے گزر کر اسرائیل کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران نے شام اور لبنان میں موجود اپنے اتحادی گروہوں کو اس انداز سے منظم کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی سرحد کے قریب رہتے ہوئے اسے کسی بھی وقت دباؤ میں لا سکتے ہیں۔ حزب اللہ جیسی تنظیمیں نہ صرف راکٹ حملے کرتی ہیں بلکہ زمینی انٹیلیجنس اور مقامی حمایت بھی فراہم کرتی ہیں۔


بحری راستے میں ایران خلیج فارس، آبنائے ہرمز، یمن، بحر احمر، سوئز کینال اور بحیرہ روم کے ذریعے اسرائیل کے مغربی ساحلوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ یمن میں حوثی باغیوں کی مدد سے ایران بحر احمر میں ایک اسٹریٹجک رسائی قائم کر چکا ہے، جو اسرائیل کی بندرگاہوں کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
اس کے برعکس اسرائیل ایران پر براہِ راست زمینی یا بحری حملہ نہیں کر سکتا، مگر وہ جدید فضائی طاقت (خصوصاً F-35 طیاروں)، سائبر حملوں (جیسے نطنز پلانٹ پر Stuxnet وائرس)، اور خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے ایران کو نشانہ بناتا ہے۔ اسرائیل نے موجودہ جنگ میں کئی ایرانی قائدین، سائنسدانوں، تنصیبات اور حساس مراکز کو ہدف بنا کر یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ایران کے اندر گہرائی تک کارروائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موساد کی کارروائیاں ایران کے لیے صرف عسکری ہی نہیں، بلکہ نفسیاتی سطح پر بھی ایک دباؤ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔


مختصر یہ کہ ایران کا شام، لبنان، عراق اور یمن میں موجود نیٹ ورک اسے اسرائیل کی سرحدوں کے قریب کارروائی کا موقع فراہم کرتا ہے، جب کہ اسرائیل اپنی (air superiority) اور (covert operations) کے ذریعے ایران کے اندر گہرائی تک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے


2- دونوں ممالک کی آبادی کی کثافت Population Density : 


جنگی حکمتِ عملی میں ہمیشہ یہ پیشِ نظر رکھا جاتا ہے کہ کسی فضائی حملے، میزائل سٹرائیک یا بمباری کی صورت میں سب سے زیادہ جانی نقصان ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں آبادی کا دباؤ زیادہ ہو۔


آبادی کا دباؤ یا آبادی کی کثافت (Population Density) کسی مخصوص علاقے میں فی مربع کلومیٹر رہنے والے افراد کی تعداد کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر کسی علاقے کی کثافت 10,000 ہو، تو مطلب یہ ہے کہ ہر کلومیٹر میں اوسطاً 10,000 افراد بستے ہیں۔


اسرائیل ایک چھوٹا مگر گنجان آباد ملک ہے، جہاں اوسطاً 430 سے زائد افراد فی مربع کلومیٹر بستے ہیں۔ ایران ایک وسیع ملک ہے، جہاں کل آبادی تقریباً 9 کروڑ ہے، لیکن اوسط کثافت صرف  56 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔ یہ فرق اسرائیل کو جنگی لحاظ سے کمزور بناتا ہے کیونکہ وہاں کے شہری، عسکری، اور رہائشی ڈھانچے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ دوسری طرف، ایران کا پھیلا ہوا جغرافیہ اسے Strategic Depth فراہم کرتا ہے۔


حالیہ جنگ میں اسرائیل نے ایران کے جن شہروں کو زیادہ نشانہ بنایا، ان میں تہران، اصفہان اور تبریز شامل ہیں اور ان شہروں کی آبادی کی کثافت کئی اسرائیلی شہروں سے بھی زیادہ ہے۔ تہران میں یہ 14,000 کے قریب پہنچ چکی ہے؛ اصفہان میں 4,025 اور تبریز میں تقریباً 4,795 افراد فی مربع کلومیٹر  آباد ہیں۔ یہ تینوں شہر نہایت گنجان آباد اور گھنے شہری ڈھانچے کے حامل ہیں، جہاں ایک حملے کا اثر بیک وقت ہزاروں افراد پر پڑ سکتا ہے۔ جب سڑکیں، اسپتال، اسکول اور بنیادی ڈھانچے ایک ہی جگہ مجتمع ہوں تو تباہی کی شدت بڑھ جاتی ہے۔ 


ایران نے  شاید یروشلم کو مذہبی حساسیت کی وجہ سے کچھ زیادہ اپنے نشانے پر نہیں رکھا کیونکہ یہ شہر تینوں الہامی مذاہب  یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے لیے مقدس ہے اور یہاں مسجد اقصٰی بھی واقع ہے۔ اس کے بجائے، ایران نے تل ابیب، حیفہ اور بت یام کو اپنے فرسٹ ٹارگٹس کے طور پر چُنا۔
تل ابیب، جس کی آبادی تقریباً 4,95,600 ہے، میں آبادی کی کثافت 7,600 سے 8,600 کے درمیان ہے۔ حیفا، ایک اہم صنعتی و بندرگاہی شہر، کی آبادی 2,90,000 اور کثافت 3,900 سے 4,100 فی مربع کلومیٹر ہے۔ بت یام، جس کی آبادی 1,26,000 ہے، میں کثافت 12,000 کے لگ بھگ ہے اور یہ اسرائیل کے گنجان ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔


نتیجتہ اسرائیل ایک نسبتاً چھوٹا مگر انتہائی گنجان آباد ملک ہے، جہاں شہری علاقوں پر کسی بھی حملے کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران ایک وسیع جغرافیہ رکھتا ہے، جس میں کئی علاقے نسبتاً (sparsely populated) ہیں۔  یہ امر اسے کسی ممکنہ حملے میں جغرافیائی گہرائی کا (defensive advantage) دیتا ہے


3- فائر پاور  Firepower / Technology :
جنگ میں کسی فریق کے پاس دشمن کو مارنے، جلانے، تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے کی جو طاقت ہوتی ہے، اسے فائر پاور  Firepower کہا جاتا ہے۔ ماضی میں فائر پاور کا مطلب توپوں، ٹینکوں اور فضائی بمباری جیسی جسمانی قوت تھا۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے دوران اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا تھا کہ کون کتنی زیادہ مقدار میں بارود Explosives استعمال کر سکتا ہے۔ اس دور میں جنگی میدان واضح ہوتے تھے، دشمن سامنے ہوتا تھا، اور تباہی کا مطلب ہوتا تھا عمارتوں کا گرنا اور شہروں کا ویران ہونا، لیکن اس کے باوجود معاشرتی نظام Social Systems مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوتے تھے۔


وقت کے ساتھ فائر پاور کا مفہوم بدل گیا ہے۔ اب یہ صرف گولہ بارود تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی ذہانت اور کنٹرول تک پھیل چکا ہے۔ آج فائر پاور کو مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: جسمانی تباہی کے لیے کائنیٹک فائر پاور (Kinetic Firepower)، نیٹ ورکس اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر حملے کے لیے سائبر فائر پاور (Cyber Firepower)، اور سگنلز یا کمیونیکیشن کو جام کرنے کے لیے الیکٹرانک وارفیئر (Electronic Warfare) کا استعمال کیا جا رہا ہے


ایران اسرائیل جنگ کے یہ تینوں پہلو اس بات کو نمایاں کرتے ہیں کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ایک روایتی معرکہ نہیں رہی، بلکہ ایک (multi-dimensional)، جدید اور (intelligence-driven) جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے،  جہاں فاصلہ، میدانِ جنگ اور ہتھیار تینوں مکمل طور پر non-conventional بن چکے ہیں ایران روایتی اور غیر روایتی ہتھیاروں، میزائل پروگرام، ڈرون ٹیکنالوجی  اور پراکسی فورسز کے ذریعے جنگ کی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے، جب کہ اسرائیل cyber warfare جدید ترین F-35 jets اور موساد جیسے خفیہ اداروں کی مدد سے دشمن کے اندرونِ ملک حساس اہداف کو ہدف بناتا ہے

 

1 Comment

53 Views

Syed Shayan

مصنف کے بارے میں

اس آرٹیکل کے مصنف سید شایان پیشے کے حساب سے بزنس مین ہیں۔ اور لاہور میں رہتے ہیں۔ مین گلبرگ لاہور میں اپنے رئیل اسٹیٹ سٹارٹ اپس اور سافٹ وئیر کمپنی چلا رہے ہیں۔ آپ نے اپنے ہی نام سے ایک تھنک ٹینک اور ویب پورٹل syedshayan.com قائم کیا ہے۔ جو تجزیاتی تحریروں، قومی و عالمی موضوعات پر تحقیق، اور بصیرت افروز مکالمے کا پلیٹ فارم ہے۔

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

🎖 فِیلڈ مارشل کا عُہدہ

اگر آرمی چیف کو فِیلڈ مارشل کا رینک دیا جا سکتا ہے تو پاکستان ایئر فورس کے سَربراہ کو “مارشل آف دی ایئر فورس” کا اِعزازی رینک دینا بھی وقت کا تقاضا ہے کہ حالیہ جنگ میں پاکستان کی فتح کا فیصلہ کُن اور مرکزی کردار فِضائیہ نے ہی ادا کیا ہے۔


Article Image

بھارت کا اپنی واضح شکست ماننے سے انکار!

جنگ ہارنے والا فریق اعترافِ شکست کیوں نہیں کرتا؟ ایک نفسیاتی تجزیہ!