آج کی جنگیں صرف میدانِ جنگ میں ہی نہیں لڑی جاتیں ، بلکہ اب اصل معرکہ قلم، بیانیے، اور الفاظ کی مدد سے زیادہ لڑا جاتا ہے۔
آج دشمن کو صرف سرحد پر نہیں، بلکہ ٹیلی ویژن کی اسکرین پر شکست دینا اس سے بھی زیادہ ضروری سمجھا جا رہا ہے۔
دُشمن کو زیر کرنے کے لئیےجہاں کبھی تلواروں اور منجنیقوں سے مدد لی جاتی تھی آج وہاں الفاظ کی گولہ باری ہوتی ہے، خبروں، تقریروں اور وائرل کلپس کی گھن گرج سنائی دیتی ہے۔ ایک خبر، ایک تقریر، ایک وائرل کلپ، یہ سب آج کے دور کے نئے ہتھیار ہیں۔
الفاظ کی یہ جنگ کبھی سچ کو دفن کرتی نظر آتی ہے، اور کبھی جھوٹ کو تاج پہنا دیتی ہے۔
آج کی دنیا میں اصل جنگ اب حقائق Facts اور Perception تائثر کے درمیان ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم صرف یہ نہ سنیں کیا کہا جا رہا ہے، بلکہ یہ بھی دیکھیں، کون کہہ رہا ہے، کیوں کہہ رہا ہے، اور کس کے لیے کہہ رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک جنگ میں پسپا ہوتا ہے، وہ شاذ و نادر ہی اس کا کھلم کھلا اعتراف کرتا ہے۔ بجائے اس کے کہ شکست تسلیم کی جائے، شکست کو ماننے کے بجائے، ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا جاتا ہے جیسا کہ “ہم نے دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا”، “ہم نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے”، “ہماری بہادر افواج کو ہمارا سیلیوٹ ”، یا “ہم ایک غیرتمند اور آزاد قوم ہیں” ایسے جملے وقتی طور پر قوم کے جذبات کو سہارا تو دیتے ہیں، مگر حقیقت سے چشم پوشی، قوم کو محض خوش فہمیوں میں مبتلا کر دیتی ہے ، اور یہی وہ دھند ہے جو سچائی کی روشنی کو چھپا لیتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ایک شکست خوردہ فریق کیوں اپنی شکست تسلیم نہیں کرتا، اس کی تین بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
وقار اور عوامی حوصلہ:
شکست تسلیم کرنا محض ایک عسکری حقیقت نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی دھچکہ ہوتا ہے۔ یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شکست
تسلیم کرنے سے عوام کا حوصلہ پست ہوتا ہے، قوم کا اعتماد متزلزل ہو جاتا ہے، اور ریاستی اداروں کی ساکھ
خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اسی لیے قیادت اکثر جذباتی نعروں اور فرضی فتوحات کی کہانی سُنا کر عوام کو مطمئن
رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
سیاسی و سفارتی مجبوری:
بین الاقوامی سطح پر ہار ماننا دشمن کو مزید دباؤ ڈالنے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ، عالمی
برادری یا حلیف ممالک کی نظروں میں کمزور دکھائی دینا، آئندہ تعلقات اور معاہدات پر بھی اثر ڈال سکتا
ہے۔ اسی لیے بعض اوقات “جنگ بندی” کو کامیابی یا وقار کے ساتھ واپسی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
تاریخی بیانیے پر گرفت:
ریاستیں جانتی ہیں کہ تاریخ محض واقعات کا نہیں، نظریات کا کھیل بھی ہے۔ جو بیانیہ نصاب، میڈیا اور
تقریروں کے ذریعے نئی نسل کو دیا جاتا ہے، وہی ان کے ذہنوں میں “سچ” بن جاتا ہے۔ اس لئیے ضروری ہے کہ
آنے والی نسلیں حکمرانوں سے کوئی سوال نہ کریں، بلکہ اُن پر فخر کریں۔
تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا عام انسان اصل حقائق جانے بغیر جھوٹے بیانیوں کو ہی سچ سمجھ لیتا ہے ؟ اور کیا تاریخ، محض جھوٹ کے بیانیوں اور مفروضوں کا مجموعہ ہے ؟؟
نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے!
تاریخ سب سے بڑی منصف ہے وہ کچھ تاخیر سے سہی لیکن ایک روز اپنا فیصلہ سناتی ہے اور جو سچ ہوتا ہے وہ سامنے آ کر رہتا ہے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ سچ کبھی نہیں مرتا۔ یہ سو فیصد درست بات ہے ۔ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو میدانِ جنگ میں دیکھئیے۔
جنگوں میں سچ کو دفن ضرور کر دیا جاتا ہے، لیکن وہ مرتا نہیں۔ وقت کے اہرام پر پڑی گرد جب چھٹتی ہے، تو سچ دوبارہ سانس لیتا ہے اور از خود بولتا ہے۔
میں اپنے اس مضمون میں چند ایسی اہم جنگوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس میں شکست کھانے کے بعد بھی شکست خوردہ فریق نے شکست کا اعتراف نہ کیا اور ان کی جانب سے اپنی برتری کا بیانیہ دُنیا کے سامنے پیش کیا جاتا رہا۔

امریکہ کی افغانستان میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ — جسے ابتدا میں “وار آن ٹیرر” (War on Terror) کہا گیا — کا اختتام 15 اگست 2021 کو اس وقت ہوا جب طالبان نے کابل پر دوبارہ قبضہ کر لیا، اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے کابل پر قبضہ کیا۔ افغان نیشنل آرمی، جس پر $83 ارب سے زائد خرچ کیے گئے، لڑے بغیر منتشر ہو گئی۔ لاکھوں افغان شہریوں نے ہوائی اڈوں پر ہجرت کی کوشش کی، امریکہ کو طالبان سے “مذاکرات” کے نام پر افغانستان سے فوری فوجی انخلاء کرنا پڑا۔ اور اسے “مشن مکمل” کہا گیا، حالانکہ حقیقت میں یہ ایک واضح شکست تھی۔ اور تاریخ نے اسے دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت کی ناکامی قرار دیا۔
“ساگون 1975” کے بعد افغانستان کے محاذ پر امریکہ کی یہ ایک اور بڑی ہزیمت ہے کہ جب ایک طاقتور سپر پاور بیس سال کی موجودگی، کھربوں کی سرمایہ کاری، اور ہزاروں فوجیوں کی جانوں کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی، اور جس دشمن کو ختم کرنے کے لیے وہ افغانساتان پہنچی تھی اس کی وطن واپسی پر وہی دُشمن دوبارہ اقتدار میں آ جائے — تو اسے شکست نہیں تو پھر اور کیا کہیں گے۔
اسی طرح 1975 میں امریکہ کو ویتنام میں عسکری اور اخلاقی لحاظ سے واضح شکست ہوئی، لیکن اس کے باوجود امریکی میڈیا اور حکومتی بیانیہ اسے “اخلاقی جیت” اور “اسٹریٹیجک ریٹریٹ” قرار دیتا رہا۔ یہ بیانیہ وقتی طور پر قوم کو تسلی دیتا رہا، مگر حقیقت زیادہ دیر چھپی نہ رہ سکی۔ فوجیوں کی یادداشتیں، انکشافاتی رپورٹس، اور ہالی وُڈ کی فلمیں رفتہ رفتہ اصل چہرہ سامنے لاتی گئیں۔
اس انکار نے امریکہ کو نہ صرف سچ تسلیم کرنے سے روکے رکھا، بلکہ اپنی فوج اور نئی نسل کو نئی جنگی حکمتِ عملیوں اور اصلاحات سے بھی محروم رکھا۔ کیونکہ جب شکست کو شکست مانا ہی نہیں جاتا، تو نہ سبق سکھایا جا سکتا ہے، نہ سیکھا جا سکتا ہے۔ یوں شکست سے انکار، اگلی شکست کی بنیاد بن جاتا ہے جو امریکہ کو افغانستان کی جنگ میں دیکھنے کو ملا۔
1989 میں سوویت افواج نے افغانستان سے واپسی کو “عزت بچا کر نکلنا” قرار دیا۔ لیکن درحقیقت یہ ان کی عسکری، معاشی اور اخلاقی شکست تھی، جس کا اعتراف نہیں کیا گیا اور یوں اندرونی انتشار اور عوامی اعتماد کا بحران پیدا ہوا۔ چند سال بعد، 1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں شکست اور اس شکست سے انکار، اس زوال کا نقطۂ آغاز تھا۔
1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد، پاکستانی ریاست نے کئی سال تک اس واقعے کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ تعلیمی نصاب، میڈیا، اور سرکاری بیانات میں اپنی فوجی شکست تسلیم کرنے کے بجائے اسے محض “غیر ملکی سازش” کہا جاتا رہا۔ اگر مورخ مبارک علی، معروف صحافی حامد میر اور چند اور اہلِ قلم قوم کی توجہ اس طرف نہ دلواتے اور قوم کو یہ احساس نہ دلاتے کہ مشرقی پاکستان کا الگ ہو جانا اگرچہ ایک سانحہ تھا، لیکن اس کے بعد بھی ریاست کا اس حقیقت سے انکار اس سانحے سے بھی بڑا سانحہ ہے۔ حالات جوں کے توں ہی رہتے۔
کہ سخت عوامی مطالبے اور دباؤ پر اگر سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب جاننے کے لئیے حکومت جسٹس حمود الرحمٰن کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل نہ دے دیتی مدّتوں بعد اس کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی زبان، مشاہدات اور نتائج صاف ظاہر کرتے ہیں کہ 1971 کا سانحہ ایک بڑی فوجی، سیاسی اور اخلاقی ناکامی تھا، جہاں غلط عسکری حکمتِ عملی، افسران کی بدعنوانی، اور عوامی خواہشات کو نظر انداز کرنا بنیادی اسباب بنے۔اس رپورٹ میں ہماری شکست کے اسباب پر کھل کر بات کی گئی ہے۔
نپولین ایک عظیم فوجی جرنیل تھا جس نے یورپ بھر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے اور اپنی جنگی حکمتِ عملی سے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا، لیکن اپنی آخری جنگ، واٹرلو میں شکست کھانے کے باوجود اس نے کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم نہیں کی۔ وہ اسے قسمت، دھوکہ یا دوسروں کی ناکامی سے تعبیر کرتا رہا۔ یہی انکار، جس نے اس کی عظمت کے تاثر کو دھندلا دیا، ورنہ وہ صرف فاتح نہیں، بلکہ ایک باوقار شکست خوردہ کے طور پر بھی یاد رکھا جاتا۔ لیکن آج تاریخ اسے ایک عظیم فاتح اور غیر معمولی جنگی ذہانت رکھنے والے سپہ سالار کے طور پر تو یاد رکھتی ہے، لیکن اس کی آخری شکست کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ اسے کامل لیڈر کے درجے تک پہنچنے سے روک دیتا ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سب سیاسی رہنما اور فوجی جرنیل جنگ ہارنے پر جھوٹ کا سہارا لازمی لیتے ہیں۔ تاریخ میں ہمیں وہ شخصیات بھی نظر آتی ہیں کہ جنہوں نے وقتی طور پر جھوٹ کا سہارا لینے کی بجاۓ یہ بہتر جانا کہ وہ اپنی قوم کو سب سچ سچ بتا دیں جو سیاسی رہنما یا فوجی جرنیل شکست کو تسلیم کر کے اپنی قوم کو سچ بتاتے ہیں، وہ وقتی طور پر تنقید کا نشانہ ضرور بنتے ہیں، لیکن تاریخ میں عزت اور وقار حاصل کر لیتے ہیں — اور وہی قومیں ترقی بھی کرتی ہیں کہ جنہیں اس اعلی اخلاق کے رہنما یا فوجی جرنیل نصیب ہوۓ ہوں ۔
تاریخ میں کئی ایسے عسکری جنرل اور عوامی رہنما بھی گزرے ہیں جنہوں نے شکست کو بہادری سے تسلیم کیا اور یہی اعتراف ان کی عظمت اور عوامی احترام کا سبب بن گیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں فرانس نے نازی جرمنی کے ہاتھوں شکست کھائی، لیکن جنرل چارلس ڈی گال نے نہ صرف اس شکست کو تسلیم کیا بلکہ قوم کو دوبارہ منظم کر کے مزاحمتی تحریک کی قیادت کی جس کے بتیجے میں وہ بعد میں فرانس کے صدر بھی بنے اور انہیں قومی ہیرو کا درجہ الگ ملا۔
جرمن جنرل اروِن رومیل، جسے “دی ڈیزرٹ فاکس” کے نام سے جانا جاتا ہے، نہ صرف اپنی جنگی مہارت بلکہ اپنی اخلاقی جرات کے باعث تاریخ میں ایک باعزت مقام رکھتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب اسے شمالی افریقہ میں الٰمین کی جنگ میں شکست ہوئی، تو اس نے کھلے دل سے شکست تسلیم کی اور اپنی افواج کی حفاظت کے لیے منظم پسپائی اختیار کی، جو اس کی حقیقت پسندی اور قیادت کی اعلیٰ مثال تھی۔ بعد ازاں ہٹلر کی پالیسیوں سے اختلاف کرنے پر انہیں زہر دے کر خاموشی سے موت دی گئی کیونکہ جنرل رومیل اس قدر مقبول اور عزت دار جنرل تھے کہ اگر انہیں کھلے عام سزا دی جاتی، تو جرمن قوم میں بغاوت کا خطرہ تھا آج تاریخ میں رومیل کو ایک ایسا جنرل سمجھا جاتا ہے جس نے نہ صرف کامیابی بلکہ شکست کو بھی عزت کے ساتھ قبول کیا۔
جب سلطنتِ عثمانیہ پہلی جنگِ عظیم میں شکست کھا کر بکھری، تو ترکی نے اس تلخ حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے خلافت کے خاتمے اور ایک جدید، قوم پرست ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا۔ مصطفیٰ کمال اتاترک، جو ایک قابل اور کامیاب فوجی جنرل تھے، نے 1924 میں خلافت کا خاتمہ کر کے ایک سیکولر، جدید اور مغرب سے ہم آہنگ ترکی کی بنیاد رکھی۔ اُن کے نزدیک روایتی مذہبی قیادت شکست خوردہ ذہنیت کی علامت بن چکی تھی، جو قوم کی زوال پذیری کا اصل سبب تھی۔ اتاترک نے شکست کو بہادری سے تسلیم کیا اور اپنی قوم کو سمجھایا کہ شکست سے شرمندگی کیسی ؟ شکست تسلیم کرو اگلی فتح یقینی تمھاری ہے مستقبل تمھارا ہے ۔۔ انہوں نے اپنی قوم کو ایک نئی فکری، سیاسی اور قومی شناخت عطا کی۔ اگرچہ ریاستی سطح پر یہ شکست قبول کر کے اصلاحات کی گئیں، مگر مذہبی اور عوامی حلقوں میں یہ تبدیلی طویل عرصے تک ایک گہرے زخم کی مانند محسوس کی جاتی رہی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ترکی نے اتا ترک کی قیادت میں شکست کو عملاً تسلیم کرتے ہوئے خود کو ازسرِ نو تشکیل دیا، لیکن تہذیبی اور جذباتی سطح پر مسلم اُمّہ اور علماۓ دین کا ایک بڑا حصہ آج بھی خلافت کے خاتمے کو مکمل دل سے قبول نہیں کر سکا۔
امریکی سول وار میں جنوبی ریاستوں کے جنرل رابرٹ ای لی نے 1865 میں شکست تسلیم کی اور مزید خونریزی سے بچنے کے لیے جنگ روک دی — ان کا یہ طرزِ عمل آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے شکست کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔
جاپانی ایڈمرل یاماموتو نے پرل ہاربر حملے کے بعد کہا تھا: “ہم نے ایک سوئے ہوئے دیو کو جگا دیا ہے” — وہ جانتے تھے کہ امریکہ سے جنگ جیتنا ممکن نہیں ہوگا، اور یہی پیش گوئی ان کی بصیرت اور شکست کو پہچاننے کی علامت تھی۔ پرل ہاربر حملے کے اس منصوبہ ساز ایڈمرل یاماموتو نے جاپان کی حکمتِ عملی پر عمل تو کیا، لیکن ساتھ ہی بصیرت سے یہ بھی کہا: “ہم نے ایک سوئے ہوئے دیو کو جگا دیا ہے” یعنی وہ جانتے تھے کہ یہ جنگ جاپان کے حق میں نہیں جائے گی۔ وہ خود اسی جنگ میں اپنی جان کی بازی بھی ہار گئے، لیکن آج بھی جاپان میں انہیں ایک باوقار اور وفادار سپاہی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے،
میں اپنے اس آرٹیکل کے آخر میں یہ بات زور دے کر کہوں گا شکست کا اعتراف کمزوری نہیں، بلکہ
دانشمندی اور اصلاح کی علامت ہے۔ جو قومیں سچ کا سامنا کرتی ہیں، وہی اپنی غلطیوں سے سیکھ
کر ایک مضبوط مستقبل کی طرف بڑھتی ہیں۔
لیکن قومی سطح پر خودفریبی ایک ایسا زہر ہے جو نہ صرف پورے معاشرے کو، بلکہ آنے والی نسلوں
کی سوچ اور عمل دونوں کو آلودہ کر دیتا ہے۔
جب کوئی قوم اجتماعی طور پر اپنی ناکامیوں کو جھٹلانے لگے، تو اُس کا ہر فرد محض خودفریبی
کا شکار نہیں رہتا — وہ آہستہ آہستہ فریبِ نظر کو سچ ماننے لگتا ہے۔
نفسیات میں اس کیفیت کو “اجتماعی واہمہ” (Collective Delusion) کہا جاتا ہے-
اجتماعی واہمہ وہ دھند ہے، جس میں سچائی کا چہرہ چھپ جاتا ہے، قوم اپنی شکست بھول کر
خودساختہ عظمت کے خواب بُننے لگتی ہے۔
یاد رکھئیے! غلطیوں کا اعتراف جرم نہیں، بصیرت کی علامت ہے، مگر جو قوم سچ سے منہ موڑ لے،
وہ خود اپنے زوال کی بنیاد رکھتی ہے۔
بھارت اپنی عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے اور اپنی عزت بچانے کے لیے ہار تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے
Only Brave leader can accept their defeat