Home
پبلشنگ کی تاریخ: 23 جون, 2025
رائٹر: سید شایان
Image

▫️ اگر کسی پاور ری ایکٹر پر حملہ کیا جائے، تو اس سے خارج ہونے والی تابکاری ایک ایٹم بم کے برابر ہو سکتی ہے۔

▫️ تابکاری انسانی جینز کو بدل دیتی ہے، جس کے نتائج آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

▫️ اقوامِ متحدہ اگر جوہری تنصیبات کو “No Attack Zones” قرار نہیں دے رہی، تو پھر ایسے ادارے کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔

 

قارئین! پہلے دو مضامین میں ہم نے نیوکلیئر فزکس سے متعلق حقائق اور تابکاری کے خطرات پر بات کی۔ اب اس تیسری قسط میں ہم سادہ الفاظ میں سمجھائیں گے کہ بین الاقوامی قوانین اور ادارے جوہری تنصیبات پر حملوں کو جُرم کیوں نہیں قرار دیتے۔

 

آج تک نہ اقوامِ متحدہ، نہ IAEA، اور نہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کو مخصوص بین الاقوامی جرم قرار دیا ہے۔ یہ نہ جنگی جرم کے طور پر تسلیم کیے گئے ہیں، نہ ہی ماحولیاتی جرائم کے زمرے میں شامل ہیں۔

 

اگرچہ چند ممالک اور کچھ عالمی تنظیمیں اس پر قانون سازی پر زور دیتی رہی ہیں جن میں سب سے نمایاں کردار ایران نے ادا کیا۔ 1981 میں جب اسرائیل نے عراق کے اوسیرک ری ایکٹر پر حملہ کیا تو ایران، جو خود بھی نیوکلیئر پروگرام کے دفاع میں رہتا ہے، اس حملے کو عالمی سطح پر ایک خطرناک نظیر کے طور پر پیش کرتا رہا۔ ایران نے بارہا اقوامِ متحدہ اور IAEA کے فورمز پر مطالبہ کیا کہ جوہری تنصیبات کو “No Attack Zones” قرار دیا جائے اور ان پر حملے کو بین الاقوامی جرم کا درجہ دیا جائے۔ ایران نے یہ مطالبہ اس لیے بھی کیا کیونکہ اس پر کئی بار اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے حملوں کی دھمکیاں دی گئیں، اور اسے اپنی تنصیبات کے تحفظ کے لیے ایک قانونی ڈھال درکار تھی۔

 

پاکستان بھی ان کوششوں میں پیچھے نہیں رہا۔ پاکستان نے 1990 کی دہائی میں IAEA کی جنرل کانفرنسوں اور اقوامِ متحدہ میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ صرف ایک ملک پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر حملہ تصور کیا جانا چاہیے۔ 1994 اور 2006 میں پاکستان کے نمائندوں نے کھل کر کہا کہ نیوکلیئر سائٹس کا تحفظ عالمی ذمہ داری ہے اور ایسے حملوں کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ پاکستان نے یہ مؤقف اس وقت اپنایا جب جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر تناؤ بڑھ رہا تھا اور دونوں ہمسایہ ممالک نیوکلیئر پاور بن چکے تھے۔

 

غیر وابستہ تحریک (Non-Aligned Movement) نے بھی اس معاملے کو عالمی ایجنڈے پر رکھنے کی سنجیدہ کوشش کی۔ NAM کے رکن ممالک، جو کہ ایک سو سے زائد ریاستوں پر مشتمل ہیں، نے بارہا مشترکہ اعلامیے جاری کیے جن میں نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی گئی۔ ان اعلامیوں میں کہا گیا کہ پرامن نیوکلیئر پروگرام پر حملے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں جرم قرار دیا جانا چاہیے۔ NAM نے IAEA سے مطالبہ کیا کہ وہ نیوکلیئر تنصیبات کے تحفظ کے لیے ایک باقاعدہ اور قابلِ عمل بین الاقوامی معاہدہ بنائے، جو ان پر حملوں کی صورت میں نہ صرف سزا تجویز کرے بلکہ اقوامِ متحدہ کو فوری مداخلت کا اختیار دے۔

 

مگر بدقسمتی سے، ان تمام کوششوں کے باوجود بڑی طاقتیں اس قانونی پیش رفت کو روکنے میں کامیاب رہیں۔ امریکہ، اسرائیل، اور بعض یورپی ممالک نے ہمیشہ یہ مؤقف اپنایا کہ اگر کسی ریاست کی نیوکلیئر سرگرمیاں عالمی امن کے لیے خطرہ بنیں، تو ان پر “preemptive strike” یعنی پیشگی حملہ کرنا ان کا حق ہے۔ اس مؤقف کو 1981 میں اسرائیل کے اوسیرک حملے کے بعد سب سے پہلے کھل کر اپنایا گیا، جب اسرائیل نے عراق کے نیوکلیئر ری ایکٹر کو اس بنیاد پر نشانہ بنایا کہ وہ مستقبل میں ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اس وقت اسرائیل نے یہ مؤقف پیش کیا کہ یہ حملہ “خود حفاظتی” کے زمرے میں آتا ہے، حالانکہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 487 کے ذریعے اس کی مذمت کی تھی۔

 

یہی مؤقف اس بات میں رکاوٹ بنا کہ نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کو بین الاقوامی جرم تسلیم کیا جا سکے۔

 

22 جون 2025 کو ایران پر امریکہ کے حملے کے بعد، نیوکلیئر تنصیبات کے تحفظ کے لیے عالمی برادری کو فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اول، اقوامِ متحدہ کے چارٹر یا جنیوا کنونشنز میں ایک نیا پروٹوکول شامل کیا جائے جو نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کو جنگی جرم قرار دے۔ دوم، IAEA کے اختیارات کو بڑھایا جائے تاکہ وہ تنصیبات کی حفاظت کے لیے پابند معاہدوں کی نگرانی کر سکے۔ سوم، ماحولیاتی جرائم کے تحت نیوکلیئر تنصیبات کی تخریب کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ ان اقدامات سے نہ صرف قانونی خلا پُر ہوگا، بلکہ عالمی امن اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی تقویت ملے گی۔ نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کے تباہ کن اثرات کے باوجود، عالمی قانون ان کی روک تھام کے لیے ناکام رہا ہے۔ یہ قانونی خلا عالمی امن، انسانی زندگی، اور ماحول کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔ عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ نیوکلیئر تنصیبات کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس قانون سازی کرے۔ ورنہ مستقل قریب میں ہر نیوکلیئر تنصیب کسی نہ کسی ملک کے حملے میں تباہ ہوتی رہے گی۔

 

(آخری قسط)

0 Comment

6 Views

Syed Shayan

مصنف کے بارے میں

اس آرٹیکل کے مصنف سید شایان پیشے کے حساب سے بزنس مین ہیں۔ اور لاہور میں رہتے ہیں۔ مین گلبرگ لاہور میں اپنے رئیل اسٹیٹ سٹارٹ اپس اور سافٹ وئیر کمپنی چلا رہے ہیں۔ آپ نے اپنے ہی نام سے ایک تھنک ٹینک اور ویب پورٹل syedshayan.com قائم کیا ہے۔ جو تجزیاتی تحریروں، قومی و عالمی موضوعات پر تحقیق، اور بصیرت افروز مکالمے کا پلیٹ فارم ہے۔

مصنف کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے آرٹیکلز

Article Image

کیا قربانی جانوروں کی نسل کو خطرے میں ڈال رہی ہے یا ان کی افزائش میں مدد دیتی ہے؟

پاکستان میں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لاکھوں جانور قربان کیے جاتے ہیں۔ سال 2024 میں، پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق تقریباً 68 لاکھ (6.8 ملین) جانور قربان کیے گئے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:


Article Image

پاکستانی صحافیوں پر اگر ملازمتوں کے دروازے بند ہو رہے ہیں تو یہ ماڈل ہمیں سکھاتا ہے کہ اگر دروازے بند ہو جائیں تو کھڑکی کیسے بناتے ہیں۔

روزنامہ جنگ (Daily Jang) کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں نے صحافتی برادری میں گہری تشویش پیدا کی ہوئی ہے۔


Article Image

🎖 فِیلڈ مارشل کا عُہدہ

اگر آرمی چیف کو فِیلڈ مارشل کا رینک دیا جا سکتا ہے تو پاکستان ایئر فورس کے سَربراہ کو “مارشل آف دی ایئر فورس” کا اِعزازی رینک دینا بھی وقت کا تقاضا ہے کہ حالیہ جنگ میں پاکستان کی فتح کا فیصلہ کُن اور مرکزی کردار فِضائیہ نے ہی ادا کیا ہے۔